اٹلانٹس: افلاطون کا طلسماتی شہر،ایک گمشدہ تہذیب کا دل چسپ احوال
یہ قصہ ہے افلاطون کے ایک طلسماتی شہر کا۔۔۔کیا ماضی میں واقعی کوئی ترقی یافتہ تہذیب موجود تھی؟
ذرا تصور کیجیے۔۔۔۔!
ایک ایسے جزیرے کا تصور کیجئے جہاں بلند و بالا عمارتیں ، خوبصورت سڑکیں، تازہ پانی کے جھر نے ، منظم نہری نظام، عالیشان محلات، مسلح ا فواج ، مضبوط فصیلیں، محنتی اور ذہین لوگ اور نہایت وسیع وعریض ہرے بھرے کھیت تھے ۔ سارا نظام بخوبی چل رہا تھا کہ ایک دن اچا نک زمین لرز نے لگی ۔ زلزلے کی شدت سے تمام عمارتیں اور محلات زمین بوس ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی سمندر سے بلند و بالا موجیں ( سونامی ) اٹھیں اور پورے جزیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ پو را جز بر کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زیر آب تہ نشیں ہو گیا۔ جلدہی زلزلہ ختم ہو گیا اور سمندر پرسکون ہو گیا۔تاہم اس جزیرے کا وجود اس طرح غائب ہو گیا جیسے وہ بھی وہاں موجود ہی نہ تھا۔
لیجئے جناب ! یہی ہے اٹلانٹس کا مختصر لیکن لرزہ خیز انجام جسے افلاطون نے اپنے مکالمات میں بیان کیا تھا ۔ آج ہم اسی گمشد ہ تہذیب کی تلاش کے لئے کی گئی کوششوں کا جائزہ لینے جار ہے ہیں ۔ اگر چہ اٹلانٹس کی باقیات تلاش کرنے کے لئے بلا مبالغہ سینکڑوں کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن حال ہی میں ٹھوس سائنسی بنیادوں پر یہ کام کیا گیا ہے اور چند ایسے شواہد دریافت ہوئے ہیں ، جن کے بارے میں ماہرین پر امید ہیں کہ یہ اٹلانٹس سے متعلق ہو سکتے ہیں ۔
اٹلانٹس کا تاریخی پس منظر
اٹلانٹس سے متعلق معلومات کی عوام الناس تک رسائی صرف اور صرف افلاطون Plato) )ہی کی رہین منت ہے ۔ افلاطون ، سقراط کا شاگر داور ارسطو کا استاد تھا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اٹلانٹس کے نظریے کو افلاطون کے شاگر د ارسطو نے سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔
اٹلانٹس کا نقشہ
اٹلانٹس کا شہر ایک جزیرے کے عین درمیان میں تھا اور موجودہ پیمانوں کے حساب سے یہ ایک ہموار سطح پر 17 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ، ایک دائرے کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ مرکزی شہر کے گر دایک دائروی نہر تھی جس کے بعد زرخیز زمینوں پرمشتمل ایک وسیع قطعہ اراضی تھا۔ اس کے باہر ایک اور نہرتھی جس کا مقصد دریاؤں اور پہاڑی جھرنوں سے آنے والا پانی جمع کرنا تھا۔ اس کے بعد خشکی کا ایک اور ٹکڑا تھا۔ سب سے بڑے اور بیرونی حلقے کے گرد ایک بہت بڑی فصیل تھی جو بیرونی حلقے سے ساڑھے پانچ میل دوری پر ایک دائرے کی شکل میں تھی ۔ خشکی اور پانی کے درمیان رابطے کے لئے 100 فٹ چوڑے پل تھے۔ شہر کے عین درمیان میں مرکزی پہاڑی کی چوٹی پر بادشاہ کا عالیشان محل تھا اور اس کے گرد ایک حفاظتی دیوار تھی ۔اس کے گر دبھی ایک دائروی نہر تھی ۔ یعنی پانی اور خشکی کے دائرے بنے ہوۓ تھے ۔ افلاطون کے مطابق ، اٹلانٹس کے لوگ بہت طاقتور اور شریف النفس تھے اورہ یہ جز یرہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھا ۔
اٹلانٹس کی تہذیب افلاطون کے زمانے سے 9,000 سال قبل ، یعنی آج سے تقریبا 11,400 سال قبل موجودتھی ۔ افلاطون کے بقول اٹلانٹس کا جزیرہ بحراوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) میں ہرکولیس کے ستونوں ( آ بنائے جبرالٹر) کے مخالف سمت میں واقع تھا ۔
اٹلانٹس کیسے تباہ ہوا؟
اس تہذیب کے انجام کے بارے میں تمام قدیم و جدید ماہرین کی رائے تقریباً یکساں ہے، یعنی شدید زلزلہ، آسمان سے برستی آگ اور ہیبت ناک سمندری موجیں ( سونامی ) ہی اس تہذیب کی تباہی کا سبب بنیں ۔ اور یوں وہ عظیم الشان تہذیب غرقاب ہوگئی ۔ قدیم ماہرین کے مطابق آسمان سے آگ برس تھی جبکہ جدید ماہرین کی رائے میں وہاں آتش فشاں پھٹ پڑا تھا جس سے شدید گرم میگما ( جس سے لا دا بنتا ہے ) ابل پڑا تھا۔
یاد دلاتے چلیں کہ مذکورہ بالا تمام باتیں افلاطون کے "مکالمات" سے ماخوذ ہیں۔ خواہ انہیں غلط٫ صحیح یا مبالغہ آمیز ہی کیوں نہ قرار دیا جائے۔ امید ہے کہ اب آپ کے سامنے اٹلانٹس کی تہذیب کا قدرے واضح تصور آگیا ہو گا۔
اٹلانٹس کی تلاش کی حالیہ کوششوں کا احوال
90ء کی دہائی میں ایک امریکی ماہر رابرٹ سر ماسٹ نے خیال پیش کیا کہ اٹلانٹس ، بحیرہ روم کے جزیرے قبرص (سائپرس) کے جنوب مشرق میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر سمندر میں واقع ہوسکتا ہے ۔ دس سال تک اس نظریے پر کام کرنے کے بعد آخر کار اس نے اکتوبر 2003ء میں اپنی کتاب"اٹلانٹس کی دریافت"(Discovery of Atlantis) شائع کی جس نے اٹلانٹس زدہ حلقوں میں ہلچل مچا کر رکھ دی ۔ اپنے مذکور دعوے کے حق میں سر ماسٹ نے کم و بیش پچاس ایسے نکات بیان کئے جن کے ذریعے اس نے اپنے نظریے میں مکالمات افلاطون سے مماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
اس کی کتاب کو حیرت انگیز پذیرائی ملی اور اسے علمی حلقوں میں بھی سراہا گیا۔ خوش قسمتی سے اس کتاب کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد ہی سر ماسٹ کو اس علاقے کا تفصیلی سائنسی تجز ی کرنے کا موقع مل گیا۔ اس نے وہاں ایک سال تک مختلف سائنسی شواہد جمع کئے
یہ تحقیق نومبر 2004ء میں مکمل ہوئی ۔ ان حاصل کر دو نقشوں کے ذریعے اس کے نظریات کو خاصی تقویت ملی ، کیونکہ ان نقشوں میں ایسے کئی تعمیراتی ڈھانچے دکھائی دیئے جو انسانی ہنر مندی سے ہی ممکن ہو سکتے تھے ۔ یہ ڈھانچے ( کھنڈرات ) اور دیوار شمندر میں 1500 میٹر کی گہرائی میں پائی گئیں۔ اب وہ مطلوبہ جگہ پر ایک ریموٹ کنٹرول گاڑی بھیجنا چاہتے ہیں ، جوان مقامات کی نہایت قریب سے حقیقی تصویر یں بنا سکے تا کہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ یہ واقعی اٹلانٹس کی باقیات ہیں ۔ وہ عملہ بردار آبدوز کے ذریعے، ماہرین کے ساتھ خود بھی اس مقام کو قریب سے جا کر دیکھنے کے خواہش مند ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں اس نظریے کی مکمل تصدیق ہو جائے گی ۔
اسپارٹلSPARTEL))
2001ء میں فرانس کی میڈ یٹرینین یونیورسٹی کے ڈاکٹر مارک آندرے نے اٹلانٹس کے متوقع مقام کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہرکولیس کے ستونوں ( آبنائے جبرالٹر ) کی بالکل سیدھ میں بھی ایک جزیرہ موجودتھا جس کا نام اسپارٹل تھا۔ 12,000 سال قبل جب گزشتہ برفانی عہد کا خاتمہ ہوا تو برف کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بھی بلند ہونا شروع ہوئی اور یہ جزیرہ بھی آہستہ آہستہ پانی کی سطح کے نیچے چلا گیا۔ اس وقت یہ جزیرہ سطح سمندر سے 60 میٹر نیچے خلیج کادیز Cadiz) ) میں واقع ہے، جو بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے۔ لیکن یہ نظر یہ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا کیونکہ افلاطون کے مکالمات میں جزیرے کی غرقابی اس طرح نہیں تھی ۔
سائنسی وضاحت
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آثار قدیمہ، ارضیات ، بحریات اور دوسرے سائنسی میدانوں میں سوسال سے بھی زیادہ مدت سے جاری تحقیق کے باوجود آج تک اٹلانٹس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ہمارے پاس کوئی ایک شہادت بھی ایسی نہیں جسے ہم "سائنسی اعتبار" سے ٹھوس اور قابل قبول قرار دے سکیں لیکن پھر بھی متعد د سائنسدانوں سمیت کروڑوں افراد کو اٹلائٹس کے وجود پر یقین ہے ۔ گزشتہ سوسال کے دوران اس موضوع پر کم و بیش 2,000 سے زائد کتب تحریر کی جا چکی ہیں، اور مختلف طبقات میں اس کی موجودگی ( یا عدم موجودگی ) پر مسلسل بحث جاری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اٹلانٹس ہی کیوں؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر سب لوگ اٹلانٹس ہی کو کیوں تلاش کر رہے ہیں؟ کیا زمانہ قبل از تاریخ میں صرف اٹلانٹس کی تہذیب کا وجود تھا؟ ضروری تو نہیں کہ سمندر سے وابستہ ہر تہذیب اٹلانٹس ہی ہو ۔ زلز لے ،سونامی اور آتش فشاں قدرت کے نظام کے حصے ہیں اور اٹلانٹس کے علاوہ بھی کئی تہذیبیں یقینا ان آفات کا شکار ہوئی ہوں گی ۔ قرآن مجید میں قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی کا واضح ذکر ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے کئی قوموں کی نافرمانی اور تباہی کا ذکر کر نے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ قومیں تم سے زیادہ طاقتور تھیں ۔ قوم عاد کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پتھروں کو تراشنے میں ماہر تھی ۔ مصر کے اہرام بھی تو آخر کسی ہنر مند تہذیب ہی نے تعمیر گئے ہوں گے۔اس لئے بحیثیت مجموعی ہم ایسی کسی تہذیب کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتے ۔ مگر افسوس کہ انہیں تلاش کر نے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ۔
بہر حال ، اس وقت اٹلانٹس کے متوقع مقامات میں رابرٹ سر ماسٹ کا تجویز کردہ مقام قبرص اور ڈاکٹر مارک آندرے کا جزیرہ اسپارٹل میدان میں ہیں اور ان کے بارے میں تحقیق جاری ہے ۔ دیکھتے ہیں قرعہ فال کس کے نام کاتا ہے ۔ یا ہوسکتا ہے کہ کوئی نیا جز یر و میدان میں آ جائے ۔ تب مزید تک آپ بھی ہمارے ساتھ انتظار کیجئے ۔