علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا ماخذ کیا ہے؟ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی نظر میں
محترم ڈاکٹر اسرار احمدصاحب ؒ کا شمار علامہ اقبال ؒ کے عقیدت مندوں اور شارحین میں میں ہوتا ہے۔انھوں نے سید نذیر نیازی کا حوالہ دے کر ایک واقعہ بیان کیا ہے جس میں علامہ اقبال ؒ نے بتایا تھا کہ انھوں نے خودی کا تصور کہاں سے اخذ کیا تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے اپنی تفسیر "بیان القرآن" میں سورت الحشر کی آیت نمبر 19 کی تشریح کرتے ہوئے اس واقعے کو بیان کیا ہے جسے یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔
ترجمہ: "اور (اے مسلمانو دیکھنا!) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔"
ہمارے لیے اس آیت کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کے بیان کے مطابق، انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اسی آیت سے اخذ کیا تھا۔ علامہ کے اس بیان کے راوی سید نذیر نیازی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے ایک واقعہ رقم کیا ہے۔ (یہ واقعہ انہوں نے ہمارے ہاں قرآن کانفرنس میں اپنے ایک لیکچر میں بھی بیان کیا تھا۔)
وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے علامہ اقبال سے ان کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ آپ نے یہ فلسفہ نطشے سے لیا ہے، کوئی اس حوالے سے کسی دوسرے مغربی فلاسفر کا نام لیتا ہے۔ بہتر ہوگا آپ خود واضح فرما دیں کہ آپ کےاس فلسفہ کا ماخذ کیا ہے۔ یہ سن کر علامہ اقبال نے انہیں فرمایا کہ آپ کل فلاںوقت میرے پاس آئیں، میں آپ کو اس کے ماخذ کے بارے میں بتائوں گا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے کہ شاعر مشرق اور حکیم الامت انہیں یہ اعزاز بخش رہے ہیں کہ انہیں اس موضوع پر تفصیلی ڈکٹیشن دیں گے۔
لیکن اگلے دن جب وہ کاپی پنسل ہاتھ میں لیے مقررہ وقت پر حاضر خدمت ہوئے تو علامہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ذرا قرآن مجید اٹھا لائو۔ وہ بہت حیران ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ علامہ اقبال انہیں فلسفے کی کسی قدیم کتاب کا حوالہ دیں گے۔ لیکن علامہ اقبال نے انہیں کہا کہ قرآن مجید میں سے سورت الحشر کی یہ آیت (آیت 19) نکال کر اس کی تلاوت کرو۔ پھر انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ہے میرے فلسفہ خوری کا ماخذ!