علامہ اقبال، خدا اور اس کی پیدا کردہ کائنات کا تذکرہ
ہمارے ہاں علامہ کے جواب شکوہ کو مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علامہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ خدا کے ساتھ خدانخواستہ گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لیکن درحقیقت اقبال نے اپنی جواب شکوہ میں بھی اور دیگر نظموں میں بھی خدا اور اس کی وحدانیت کی طرف پورے یقین سے دعوت دی ہے۔
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
یہ شیریں بھی ہے گویا، بیتوں بھی ، کوہکن بھی ہے
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
آ پایا خانہ دل میں اسے مکیں میں نے
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی
رنگیں نوا بنایا مرغا انِ بے زباں کو
گل کو زبان دے کر تعلیم خامشی دی
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
کثرت میں ہوگیا ہے،وحدت کا راز ،مخفی
جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہے
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہگزر میں نقش کف پائے یار دیکھ
وہیں سےرات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا، صبر آزما کیونکر ہوا؟
حُسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجانی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں نہاں ،خود نما کیونکر ہو؟
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا؟
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
یہ دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
ہو دید کا جوش تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ دیکھا کرے کوئی
چھپایا حُسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
تارے میں وہ ،قمر میں وہ، جلوہ گر سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تُو سرمہ امتیاز دے
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے گل سے قطرہ ،انسان کے لہو کا
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم ! تری
شجر ! حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
حُسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکس گُل ہو شبنم کی آرسی ہے
ترے شیشے میں مَے باقی نہیں ہے
بتا کیا تُو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تُونے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
نگہ پیدا کر اے غافل !تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
خداوندا !یہ تیرے سادہ بندے کدھر جائیں
کہ درویش بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری!
وہ اپنے حُسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری
ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تُو خالق اعصار و فگارندۂ آفات
اس سے بڑھ کر اور کیا فکروعمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں،اللہ کی ہے یہ زمیں
اس دیر کہن میں ہیں غرض مند پجاری
رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدایاد
رہے تیری خدائی داغ سے پاک
مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر
جو تھا ایک اے نگاہ!تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا