پاکستان 75 سال پہلے: 7 اگست 1947 کا دن کراچی کے لیے یادگار کیوں ہے؟
آج سے 75 سال پہلے 7 اگست 1947 کا دن اہل کراچی کے لیے یادگار دن تھا۔ کراچی کے فضائیں اپنے عظیم راہنما کی ایک جھلک دیکھنے کی آرزو لیے ماڑی پور ایئر پورٹ پر جمع تھے۔جیسے ہی نئی دہلی سے آنے والا ایک جہاز ماڑی پور ایئرپورٹ کراچی پر اترا تو فضا میں "پاکستان زندہ باد" کے نعروں سے گونج اٹھی۔
یہ عظیم راہنما جس کو دیکھنے کے لیے ایک جمع غفیر ایئر پورٹ پر اُمڈ آیا تھا کوئی اور نہیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی پُرکشش شخصیت تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح 7 اگست 1947 کو پہلی بار پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں تشریف لارہے تھے۔ انھوں نے وہ پوشاک یعنی چوڑی دار پاجامہ اور شیروانی پہنی تھی جو وہ بہت کم پہنتے تھے۔ دہلی سے کراچی پرواز کے لیے وائسرائے ہند نے انھیں چاندی کا رنگ کا خوب صورت ڈی-سی-3 طیارہ تحفے کے طور پر پیش کیا تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کا ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ لیکن قائداعظم کے چہرے پر متانت، سنجیدگی اور اطمینان نمایاں تھا۔ وہ کسی جذبات کو اپنے چہرے پر لانے سے گریزاں تھے۔ وہ مضبوط اعصاب کے مالک عظیم راہنما تھے وہ خال خال ہی اپنے جذبات کو ظاہر کرتے۔ آزادی کے دن بھی وہ گورنر ہاؤس کی بالکونی میں آئے اور چند لمحات کے لیے چہرے مسکراہٹ لیے کھڑے رہے۔
اگرچہ وہ عمر کے اس حصے میں جسمانی طور پر نڈھال ہوچکے تھے، چہرے پر بڑھابے کے آثار نمایاں تھے لیکن وہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد سے مطمئن نظر آرہے تھے۔
جب وہ کراچی اترے تو ان کے ساتھ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور میاں عطا ربانی بھی سوار تھے۔ میاں عطا ربانی، سنیٹر میاں رضا ربانی کے والد تھے۔ وہ قائداعظم کے پہلے اے ڈی سی تھے۔ چھے ماہ تک قائد اعظم کے ساتھ بطور اے ڈی سی خدمات سرانجام دیں۔ وہ پہلے پائلٹ تھے جن کا رائل انڈین ایئر فورس سے رائل پاکستان ایئر فورس میں تبادلہ ہوا۔