ڈال سے کوئل اڑ جاتی ہے
پتلے پتلے ہونٹوں پر ہیں
آنکھوں جیسی موٹی باتیں
ایسی باتیں کیوں کرتے ہو
زلفیں سپنے
پھول اور جذبے
اچھا ہاں اک بات بتاؤ
کل تم اتنے چپ چپ کیوں تھے
خاموشی سے یوں لگتا تھا
جیسے سپنے ٹوٹ رہے ہوں
مجھے خبر ہے میری خاطر
تم نے کیا کیا
کوکتے کوکتے ڈال سے کوئل اڑ جاتی ہے
من کا مندر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے
میں کیا جانوں تم نے کیا کیا دکھ جھیلے ہیں
اچھا آؤ وعدہ کر لیں
ایسی باتیں نہیں کریں گے
لیکن ہاں ناراض نہ ہونا
دیکھ مجھ سے ملتے رہنا
بولو اب میں جاؤں یہاں سے
میں اور وہ اب پتھر کے ہیں
اسی جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں
جانے کب سے گڑے ہوئے ہیں
اک پتھر میں آوازیں ہیں
اک پتھر میں سناٹا ہے
سناٹا آواز کا پردہ
آوازیں سناٹے کا
بولو اب میں جاؤں یہاں سے
میں کہتا ہوں جا سکتے ہو