قصہ ایک صدی کا! 1919 کے راولپنڈی سے 2020 کے دوحہ تک
معروف برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ (The Guardian) کا نامہ نگار، بین ڈوہرٹے (Ben Doherty) 31 اگست کے شمارے میں بتاتا ہے
”دو دہائیوں کے بعد ، کسی طمطراق سے عاری اور کسی فاتحانہ تفاخر سے محروم، آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے رخصت ہو گیا۔ پیر کی رات، تاریک بیں سبز روشنی میں ڈوبے، میجر جنرل کرس ڈوناہو (Chris Donahue) کے پاؤں میں افغانستان کی سرزمین کو چھوڑنے والے دو آخری بوٹ تھے۔ وہ ائرفورس سی 17 کی عقبی ڈھلوان سے طیارے میں سوار ہو گیا۔ جونہی، جنگی وردی میں ملبوس، سر پر ہیلمٹ سجائے، دائیں ہاتھ میں رائفل تھامے، 82 ویں ائر بارن ڈویژن کا کمانڈر طیارے میں داخل ہوا، افغانستان میں عاقبت نا اندیشانہ امریکی مہم جوئی، اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ پانچ امریکن سی۔ 17 طیاروں میں سے آخری طیارے کے پہیے، ٹھیک گیارہ بج کر انسٹھ منٹ پر افغانستان کی مٹی کو چومتے ہوئے فضا میں بلند ہوئے تو امریکی سپاہ کے کمانڈر میجر جنرل ڈوناہو نے اپنے سپاہیوں کو آخری پیغام بھیجا۔
”Job well done، I am proud of you all“
”منصوبہ عمدگی سے تکمیل پا گیا۔ مجھے تم سب پر فخر ہے۔“
معلوم نہیں امریکی سپاہ کے کمانڈر کا اشارہ، بیس سال پر محیط امریکی منصوبے کی طرف تھا، یا شکست خوردہ فوج کے انخلاء کی طرف، لیکن اگست 2021 کا آخری سورج طلوع ہونے سے قبل، جب نصف شب کا چاند کابل کے پہاڑوں سے جھانک رہا تھا تو تاریخ کی لوح پر ایک نیا باب رقم ہو رہا تھا۔ اس باب کا سرنامہ بھی نوع انسانی کی صدیوں پر محیط تاریخ کا وہی دیرینہ سبق تھا کہ ”کسی مقصد بلند سے عاری طاقت، مقصد سے آراستہ جذب و جنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔“
یہ سبق نہ پہلے کسی نے یاد رکھا نہ آئندہ رکھے گا۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ فیضان سماوی سے محروم طاقتیں بالعموم اندھی، گونگی اور بہری ہوتی ہیں۔ نہ وہ مدمقابل کے خد و خال دیکھتی، نہ اس سے کلام کرتی اور نہ اس کی دلیل سنتی ہیں۔ طاقت کا زعم اور طاقت آزمائی کا جنوں، طاقت کی وہ کمزوری ہے جو اسے نفع و ضرر اور سود و زیاں کے گوشواروں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ خدا فراموشی، خودسری اور رعونت کے تند خو گھوڑوں پر سوار یہ قوتیں، تصوارتی فتح کے پھریرے لہراتی اپنے حریف پر جھپٹتی ہیں۔
اپنے بارود خانے کے زور پر سب کچھ تاخت و تاراج کر دیتی ہیں لیکن دلوں میں آزادی کی تڑپ رکھنے والی زندہ قوموں کا جذبہ، میزائلوں، بموں اور ڈرونز کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ برسوں بعد جب یہی جذبہ آہن وفولاد پر جھپٹتا ہے تو دیکھنے، سننے اور بولنے کی ساری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پرانے زمانے کی تاریخ میدان جنگ میں حریف کی بکھری لاشوں، جلتے خیموں، ٹوٹتی طنابوں اور راکھ کے ڈھیروں کو عبرت کا باب بناتی تھی۔
جس طرح آج بگرام اور کابل کے ہوائی اڈوں پر امریکہ کے ٹینک، گاڑیاں، طیارے، ہیلی کاپٹر، ساز و سامان جنگ اور نیم سوختہ اسلحہ کے انبار، بیس سال کے سفرِ نامراد کا نوحہ کہہ رہے ہیں۔ زعم طاقت میں مبتلا قوتوں کو طاقت آزمائی کے لئے کسی معقول دلیل، بہانے یا جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہو بھی تو وہ بھیڑیے اور میمنے کی صدیوں پرانی کہانی دہراتی ہوئی اپنے ہدف پر چڑھ دوڑتی ہیں۔
گیارہ ستمبر کو ٹھیک بیس سال ہوجائیں گے۔ اسی دن نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو فلک بوس مینار زمین بوس کر دیے گئے۔ غضبناک امریکی صدر، جارج ڈبلیو بش نے اعلان کیا۔ ”۔ یہ ایک طویل مہم ہوگی۔ ایسی مہم جو پہلے کسی نے نہیں دیکھی۔ اس مہم میں ٹیلی ویژن سکرین پر دکھائی دینے والے ڈرامائی حملے بھی شامل ہوں گے اور ایسے زیرزمین خفیہ آپریشن بھی جن کی کامیابی صیغہ راز میں رکھی جائے گی۔ دنیا کے ہر گوشے میں بیٹھے ہر ملک کو آج فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ کہ کیا وہ ہمارے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ۔ طالبان فوری طور پر دہشت گرد ہمارے حوالے کردیں۔ نہیں تو انہی دہشت گردوں جیسے انجام کے لئے تیار ہوجائیں۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ایسا نہ ہوا تو انصاف کو ان تک پہنچا دیا جائے گا۔“
7 اور 8 اکتوبر 2001 کی درمیانی شب، روئے زمین کی سب سے قہرناک اور جدید ترین اسلحہ خانے سے لیس، خون آشام سپر پاور، کرہ ارض کی سب سے مفلوک الحال، سب سے پسماندہ، سب سے پامال اور سب سے کم وسیلہ قوم پر حملہ آور ہوئی۔ تین دہائیوں پر محیط جنگوں سے نڈھال، زخم خوردہ افغانستان، اکتوبر کی خنک چاندنی اوڑھے سو رہا تھا۔ جب چیختا چنگھاڑتا امریکی انصاف، کروز میزائلوں، لڑاکا طیاروں، آتش گیر بموں کو جلو میں لیے، بہ یک وقت کابل، جلال آباد، قندھار اور مزار شریف پر حملہ آور ہوا۔
طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔ وہ عام لوگوں جیسے ہی تھے سو عام لوگوں میں تحلیل ہو گئے۔ اقوام متحدہ کا پروانہ جاری ہوا عالمی افواج امریکی کروسیڈ کا حصہ بن گئیں۔ نیٹو اتحاد بنا۔ کیل کانٹے سے لیس ایک لاکھ سے زائد سورما داد شجاعت دینے آ پہنچے۔ امریکہ کٹھ پتلیاں تراشنے لگا۔ پھر مستقبل میں طالبان جیسی مخلوق کو کچلنے کے لئے ایک افغانی سپاہ تیار کی گئی۔ کھربوں ڈالر اس بے ننگ و نام تماشے کی نذر ہو گئے۔
انہی دنوں میری ملاقات اسلام آباد میں افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سے ہوئی۔ اس مرد درویش نے کہا تھا۔ ”امریکہ کے مٹھی بھر اتحادی دراصل اس کے غلام ہیں۔ امریکہ اور اس کے یہ غلام نہیں جانتے کہ انہیں اس یلغار کی ایسی قیمت ادا کرنا پڑے گی جس کا وہ اس وقت تصور بھی نہیں کر سکتے۔“ ملا ضعیف کے یہ جملے 10 اکتوبر 2001 کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے میرے کالم کا حصہ تھے جس کا عنوان تھا۔ ”انصاف! افغانستان کی دہلیز پر۔“
ملا عبدالسلام ضعیف کے ذکر سے مجھے اس بے چہرہ جنگ میں پاکستان کے کردار کی المناک کہانی یاد آ گئی۔ ملا ضعیف کے ساتھ ہم نے کیا سلوک روا رکھا، اس کی کہانی اب کتابی شکل میں چھپ چکی ہے۔ قومی ننگ و نام سے عاری، حیا باختہ خودسپردگی کا یہ مظاہرہ پرویز مشرف نامی شخص نے کیا جو اس وقت تمام ریاستی، حکومتی اور عسکری مناصب اعلی پر فائز تھا۔ چشم زدن میں اس نے اپنی سرزمین، اپنی بندرگاہیں، اپنے ہوائی اڈے، اپنی فضائیں، اپنی تنصیبات، اپنی انٹیلی جنس حتٰی کہ قومی حمیت بھی امریکیوں کے قدموں میں ڈھیر کردی۔
اپنی نوکری کے لئے پاکستان کے آئین کو چشم زدن میں روند ڈالنے والا شخص اپنے وطن اور اپنی قوم کی آبرو کے تحفظ کے لئے کچھ نہ کر پایا۔ تین یا چار بنیادی مطالبات کے لئے امریکہ نے بطور احتیاط سات نکاتی فہرست پیش کی۔ ایک ٹیلی فون کال پر اس نے ساتوں مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں ہزاروں افراد امریکہ کے حوالے کرنے اور ان کے عوض کروڑوں ڈالر وصول کرنے کو اپنی دستار فضیلت میں تفاخر کی کلغی کے طور پر سجایا۔
کوئی نہیں جانتا امریکہ کے حوالے کیے گئے افراد کون تھے؟ کہاں ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ اس شرمناک خود فروشی کے عوض ملنے والے ڈالر کتنے تھے اور کس تجوری میں پڑے ہیں۔ فرصت ملے تو لمحہ بھر کو سوچیے گا کہ اگر یہ سب کچھ عوام کے کسی منتخب وزیراعظم نے کیا ہوتا تو اس کا نام میر جعفر اور میر صادق کی صف میں لکھا ہوتا اور ہمارے ٹی۔ وی مبصر آج بھی اس کی ہڈیاں چچوڑ رہے ہوتے۔
امریکہ میں جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن مختلف النوع سوالات کی زد میں ہیں۔ میڈیا امریکی صدور کی قبائیں نوچ رہا ہے۔ مغرب میں بھی تلخ و شیریں مباحثہ زوروں پر ہے۔ ہمارے ہاں کوئی نہیں جو ایک ڈکٹیٹر کی فدویانہ، بزدلانہ اور کنیزانہ خودسپردگی کے بارے میں کوئی معصوم سا سوال بھی پوچھے۔ ہماری قومی سلامتی کا راز یہی ہے کہ سوال مت پوچھو۔ ہم نے سقوط ڈھاکہ پر کسی کی بازپرس نہیں کی تو امریکی جنگ میں مشرف کے کردار پر کیا انگلی اٹھائیں؟
روس سے لڑنے والے مجاہدین یا امریکہ سے پنجہ آزمائی کرنے والے طالبان میں لاتعداد خامیاں ہوں گی۔ روشن خیال، ترقی پسند، جمہوریت پسند، حقوق نسواں کے نگہبان، انسانی حقوق کے علمبردار اور اخلاقیات کے پیغمبرانہ منصب پر فائز واعظین کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ سب دلیلیں، سب اعتراض سر آنکھوں پر لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی تو ہے۔ وہ تاریخ انسانی کے عظیم مزاحمت کار بھی تو ہیں۔ چالیس برس کے دوران طاقت کے زبردست عدم توازن کے باوجود دنیا کی دو سپر پاور سے لڑنے اور اپنی سرزمین کا کامیاب دفاع کرنے والے آشفتہ سروں کے لئے ہمارے پاس کوئی ایک بھی حرف ستائش کیوں نہیں؟
ان کے آبا و اجداد برطانوی راج سے لڑے۔ 1919 میں راولپنڈی معاہدہ کر کے انگریز ہمیشہ کے لئے تائب ہو گیا۔ 1988 میں جینیوا معاہدے کے ذریعے قبائے صد چاک کی بخیہ گری کا سامان کرتا روس دس سالہ ہزیمت کا پشتارہ اٹھائے رخصت ہوا۔ اور اب امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت، بیس برس تک پہاڑوں سے سر پھوڑ نے کے بعد دوہا معاہدہ کی سیاہ چادر میں شکست سے چُور چہرہ چھپائے واپس چلا گیا۔ دنیا میں اتنی خونخوار سپر پاور کو، نگوں سار کرنے والی اقوام کتنی ہیں؟
وہ ملا سہی، اجڈ سہی، گنوار سہی، سنگ دل سہی، انتہا پسند سہی، دہشت گرد سہی۔ سب کچھ بجا۔ لیکن وہ تاریخ عالم کے عظیم مزاحمت کار بھی تو ہیں۔ جابروں کے خلاف مزاحمتی شاعری کرنے، جانباز کرداروں کے قصیدے رقم کرنے، انقلابی ترانے لکھنے، مزاحمت کی داستانوں پر ڈرامے بنانے اور فلمیں تخلیق کرنے والے، آتش بجاں افغانیوں کو یہ اعزاز دینے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ ان کے چہروں پر گھنی داڑھیاں اور ان کے سروں پر بھاری پگڑیاں ہیں؟
یا اس لئے کہ وہ لمبی عبائیں پہنتے اور کندھوں پر چادریں ڈالتے ہیں؟ یا اس لئے کہ وہ اللہ رسول ﷺ اور جہاد کا نام لیتے ہوئے کسی احساس کم تری کا شکار نہیں ہوتے؟ بھلے ان کے چہروں، ان کی عباؤں، ان کی قباؤں اور ان کی دستاروں پر زمانے بھر کی سیاہیاں تھوپ دو لیکن انہیں نشہ قوت میں بدمست سپرپاور کی گردنیں مروڑنے والے مزاحمت کار تو تسلیم کرلو۔ گارڈین اگر افغانستان کو ”سلطنتوں کا قبرستان“ لکھ رہا ہے تو تمہارے قلم کی روشنائی کیوں خشک ہو گئی؟ تمہاری زبانوں میں کیوں لکنت آ گئی ہے؟ راولپنڈی، جینیوا، دوحہ تمہارے لئے استعارے کیوں نہیں بن رہے؟
گارڈین ہی کے مطابق طالبان نے امریکیوں سے کہا تھا۔ ”گھڑیاں تمہاری کلائیوں پر بندھی ہیں، لیکن وقت ہماری مٹھی میں ہے۔“ وقت ہمیشہ انہی کی مٹھی میں ہوتا ہے جو آزادی اور صداقت کے لئے مرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ یہی تڑپ ان کے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرتی ہے اور اپنے سے سو گنا بڑی طاقت سے لڑا دیتی ہے۔11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں دو مینار گرے تھے۔ بیس برس بعد امریکہ کا مینار پندار بھی زمین بوس ہو گیا ہے۔