کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری

کچھ خواب سی ہے میرؔ یہ صحبت داری
اٹھ جائیں گے یہ بیٹھے ہوئے یک باری
کیا آنکھوں کو کھولا ہے تنک کانوں کو کھول
افسانہ ہے پل مارتے مجلس ساری