بھنورے کی بے قراری
نہ وہ کیتکی کی پھبن رہی
نہ وہ موتیا کی ادا رہی
نہ وہ نسترن نہ سمن رہی
نہ وہ گل رہے نہ فضا رہی
نہ گلوں کے اب ہیں وہ قہقہے
نہ وہ بلبلوں کے ہیں چہچہے
نہ غزل سرا وہ کوئی رہے
نہ وہ قمریوں کی صدا رہی
نہ وہ سرو ہے نہ وہ آب جو
نہ وہ ہم صفیر ہیں خوش گلو
نہ بنفشہ ہے نہ وہ ناز بو
نہ وہ جعفری نہ جفا رہی
نہ وہ صبح کی ہیں تجلیاں
نہ شفق کی آہ وہ جھلکیاں
نہ وہ اودی اودی ہیں بدلیاں
نہ وہ بھینی بھینی ہوا رہی
نہ امنگیں ہیں وہ شباب کی
نہ وہ پتیاں ہیں گلاب کی
نہ ہوا میں بو ہے شراب کی
مجھے مست تھی جو بنا رہی
وہ کنول غضب کے تھے دل ربا
جہاں اڑتے تھے مرے ہم نوا
مگر اب نہ ان کی ہے وہ ادا
نہ وہ بو رہی نہ صفا رہی
لب آب جو تھی فضا غضب
وہ بہار کی تھی ہوا عجب
مرے کنج میں مجھے روز و شب
مے بے خودی تھی پلا رہی
وہ غضب کی کو کو وہ زمزمہ
وہ سریلی درد بھری صدا
سر شام سرو پہ فاختہ
مجھے لوریاں تھی سنا رہی
ہیں کنول کی خشک جو پتیاں
مری خواب گہ تھی کبھی یہاں
یہیں شب کو دے دے کے تھپکیاں
تھی نسیم مجھ کو سلا رہی
نہ گلوں میں بوئے وفا رہی
نہ وہ دل ربا ہی ادا رہی
نہ چمن رہا نہ فضا رہی
نہ وہ دن رہے نہ ہوا رہی
نہ روش ہے اب وہ سپہر کی
نہ گلوں میں بو ہے وہ مہر کی
کہ ہوا ہے گلشن دہر کی
مجھے سبز باغ دکھا رہی