آن لائن گیمبلنگ کا شکار ہونے والےایک شخص کی سچی اوردردناک کہانی
’’گزشتہ سال انہی دنوں کی بات ہے، جب میں اور میرا شوہر ایک خوش گوار زندگی گزار رہے تھے۔ ہمارا ایک خوب صورت گھر تھا، دو پیارے اور معصوم بچے تھے۔ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی ختم ہوجائے گا۔ لیکن جو سوچ بھی نہیں سکتی تھی، میرے ساتھ وہ حادثہ ہوگیا۔ میرا سب کچھ تباہ ہوگیا۔ جوئے نے میرے شوہرکی جان لے لی۔ میرا گھر تباہ ہوگیا۔ صرف تین ماہ کے اندر میری زندگی کی خوشیاں چھن گئیں۔ میرے بچے اپنے باپ کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ ‘‘
یہ الفاظ ہیں ایک برطانوی خاتون اینی ایشٹن کے جس کے شوہر نے گزشتہ سال آن لائن گیمبلنگ یا جوئے کی وجہ سے خود کشی کرلی۔ یہ ایک دردناک کہانی ہے، لیکن آج کی مغربی دنیا کا منہ چڑاتی ہوئی ایک دردناک سچی کہانی۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ جدیددنیا میں کس طرح آن لائن شکاری کمپنیاں معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی چلی جاتی ہیں۔ کبھی فری بیٹنگ free betting کا لالچ دے کر انہیں دلدل میں گھسیٹتی ہیں اور کبھی آن لائن کوائن یا سکے دے کر انہیں ایسے سرابوں کا شکار بنادیتی ہیں جن کا انجام صرف موت ہوتا ہے۔
اس کہانی کے کچھ حصے ہم بیوہ اینی ایشٹن کی زبانی ہی سنتے ہیں جس نے حال ہی میں گارڈین کے لیے اپنی اس کہانی کو قلم کی زبان دی ہے۔ وہ کہتی ہے:
’’میرا شوہر جوا چھوڑ چکا تھا لیکن پھر اسے مفت شرط free bet کے اشتہارات کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ دوبارہ جوئے کی طرف راغب ہو۔ وہ نہیں سمجھ سکا اور پھر اس جال میں پھنستا چلا گیا۔ ‘‘
اینی کی بکھری بکھری باتیں پریشان کردینے والی ہیں۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کا شوہر جوئے کی لت کا شکار کیسے ہوا:
’’لیوک کواپنی موت سے تقریباً دو سال پہلےجوئے کی لت پڑی۔ پہلے پہل اس نے ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ جوا کھیلنا شروع کیا، اپنی فٹ بال ٹیم لیسٹر سٹی کے میچ میں مقامی بکیز پر شرط لگاتے ہوئے۔ اس وقت، مجھے نہیں لگتا تھا کہ یہ اس قدر خطرناک ہے ، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ جوا بہت سارے لوگوں کو مارتا ہے۔‘‘
’’جلد ہی، لیوک نے آن لائن شرطیں لگانا شروع کر دیں۔ اس نے "مفت شرط" کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد اکاؤنٹس کھولے ۔ آن لائن بک میکرز کی جانب سے لوگوں کو جوئے کی طرف راغب کرنے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ پہلے پہل ہر جوا لگانے والے کو کچھ فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور پھر اسے ایسے کھیلوں میں شرطیں لگانے کا کہا جاتا ہے جن کی انہیں کچھ سمجھ نہیں ہوتی۔ لیوک کےساتھ بھی یہی ہوا۔ آن لائن جواری کمپنیوں نے لیوک کوہارس ریسنگ یعنی گھڑ دوڑ جیسے کھیلوں پر شرط لگانے کی ترغیب دی ، جس کے بارے میں وہ بہت کم جانتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسے بہت زیادہ قرضوں میں ڈوبنے اوراپنا نقصان کرنے میں دیر نہیں لگی۔‘‘
ایسا نہیں تھا کہ اینی کا شوہر لیوک ایک بیوقوف شخص تھا۔ اینی کہتی ہے:
’’ میرا شوہر پیسے کے معاملے میں سمجھدار اور محتاط تھا، وہ فضول خرچ تھا اور نہ عیاش۔ جہاں پیسے بچا سکتا تھا تو وہ ضرور بچاتا تھا۔ ہم اپنے بل ہمیشہ وقت پر ادا کرتے تھے۔ صرف ذاتی پیسے ہی نہیں بلکہ ایک مقامی پرنٹنگ فرم میں گودام کے مینیجر کے طور پر، اس نے اکثر کمپنی کے پیسے بچانے کے طریقے بھی تلاش کیے۔ ‘‘
شروع میں اینی کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ اس کا شوہر کس جال میں پھنس چکا ہے ۔ لیکن آہستہ آہستہ اسے سمجھ آنے لگی:
’’مجھے بات کا علم اس وقت ہوا جب میں نے دیکھا کہ وہ سنیما کے ٹکٹ لینے یا کھانے کی ادائیگی کے لیے بھی پریشان ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ فون پر جوا کھیلتا تھا جس کا مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا۔مجھے ایک سال بعد جب سمجھ آئی تو ہم قرضوں میں ڈوب چکے تھے۔ تب ہم نے اپنا گھر بیچا اور اس کی رقم سے قرضوں کو ادا ئیگی ممکن ہوسکی۔ میری ناراضگی کا خیال کرتے ہوئے لیوک نے توبہ کی اور اپنے جوئے کےسب اکاؤنٹس کو بند کر دیا۔میرے لیے یہ کافی تھا۔ چونکہ لیوک کا ماضی جوئے سے خالی تھا لہٰذا میرے پاس یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ دوبارہ ایساکرے گا۔‘‘
’’لیکن 2020 میں، لیوک کو کورونا کی کی وجہ سے نوکری فارغ کردیا گیا۔ اس نے اپنے پرانے اکاؤنٹس کو دوبارہ کھول کر چھپ چھپ کر جوا کھیلنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر اس بات پر تبصرہ کرتا تھا کہ جواری کمپنیوں کی طرف سے مارکیٹنگ کی ای میلز پر ہمارے ہاں کوئی روک ٹوک نہیں۔ وہ ان لوگوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں فکر مند رہتاتھا جو پہلے ہی پیسے سے تنگ تھے۔میری سادہ لوحی تھی، میں نے سوچا کہ لیوک جب چاہے جوا کھیلنا بند کر سکتا ہے ۔ ‘‘
اینی کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ اس کا شوہر دوبارہ آن لائن جوئے کی لت میں پھنس چکا ہے۔ اسے اس وقت دھچکا لگا جب اس کے شوہر نے قرضوں اور پریشانیوں سے تنگ آ کر خود کشی کرلی۔ کیونکہ اس کے نزدیک اب اس جال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا:
’’اس کی خودکشی کے تین ہفتے بعد، پولیس نے لیوک کا فون مجھے واپس کر دیا اور تب ہی مجھے احساس ہوا کہ اس کی جوئے بازی کی لت اس حد تک بڑھ چکی تھی۔ اس کا دوبارہ اس دلدل میں گرنا اتنا تیز تھا کہ میں اب بھی یقین نہیں کر سکتی کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ کووڈ کے آغاز میں جواری کمپنیوں نے لیوک جیسے کمزور صارفین سے وعدے کیے اور انہیں پرکشش آفرز کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا۔یہ ایسا ہی کرتی ہیں: مفت شرط free bet ۔ لیوک نے بھی مفت شرط کی پیشکش کا فائدہ اٹھایا، رقم جمع کرائی، پیسے گنوائے، لیکن فوری طور پر ایک اور مفت شرط کی پیشکش کا اشتہار دیا گیا، اور یہ چکر دوبارہ شروع ہوگیا۔ ‘‘
اینی کی کہانی تو یہاں ختم ہوجاتی ہے لیکن مغربی دنیا میں گیمبلنگ انڈسٹری اس طرح کے کئی شکار کرنے میں مصروف ہے۔ آن لائن گیمبلنگ کمپنیاں لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا رہی ہیں اور قانون انہیں روکنے میں ناکام ہے۔
اینی اپنے شوہر کی خود کشی کے ایک سال بعد اب ایک مضبوط عورت کے روپ میں ابھری ہے جو آن لائن گیمبلنگ کمپنیوں کے خلاف آگاہی کی مہم چلارہی ہے۔ وہ ان کمپنیوں کے طریقہ واردات سے متعلق ہوش ربا معلومات فراہم کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے:
’’صرف برطانیہ میں یہ کمپنیاں محض اشتہارات پر سالانہ ڈیڑھ ارب پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم خرچ کرتی ہیں ۔ اور صرف برطانیہ میں ہی جوئے کی انڈسٹری کا حجم 14 ارب پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں لوگوں کو پھنسانے کے حیرت انگیز طریقے جانتی ہیں اور انہیں بخوبی استعمال کرتی ہیں۔اپنے صارفین کی عادات، ان کی وزٹ کردہ ویب سائٹس، ان کی دلچسپیوں اور مشاغل سے متعلق حیرت انگیز معلومات ان کمپنیوں کے پاس پہنچ جاتی ہے اور ایک عام شخص کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب ان کے جال میں پھنس گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کمپنیاں ایک شخص سے اس کی ماہانہ آمدنی سے دگنی رقم تک جوئے میں لگوادیتی ہیں۔ ‘‘
’’اگر وہ چاہیں تو اپنے پاس آنے والی معلومات کو لوگوں کے آن لائن اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جب وہ ان معلومات کو صارف کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ جب میرے شوہر جیسے لوگ جوئے سے توبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں زیادہ جارحانہ انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال جوئے کی وجہ سے پانچ سو سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں۔ یعنی ہر روز ایک سے زیادہ جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ ‘‘
اینی ان جوئے بازی کمپنیوں کے خلاف توانا آواز ہے۔ نہ صرف ان کے بلکہ ان کے پشت پناہ سیاسی افراد کے خلاف بھی۔ وہ کہتی ہے:
’’جوئے بازی کی لابی بہت طاقتور ہے، اس کا اندازہ آپ پارلیمنٹ کے ممبران کے بیانات سے لگا سکتے ہیں جو اس جوئے اور سٹے بازی کے حق میں بات کرنے کے لیے کھیلوں کے ٹکٹوں سے معاوضہ لیتے ہیں۔ ‘‘
بہرحال، اینی پرعزم ہے اور اپنے عزم کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتی ہے:
’’میرے بچے اپنے باپ کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔ لیکن میں امید کرتی ہوں کہ میں ایسی مہم چلاؤں گی کہ میرے جیسے کئی خاندان اجڑنے سے بچ سکیں اور ان کمپنیوں کے خلاف قانون سازی ہوسکے۔ اس سے مجھے بھی سکون ملے گا اور میرے بچوں کے غم کا بھی کچھ مداوا ہوگا۔ ‘‘