پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
سرزمینِ ایران ہر دور میں جاہ و جلال اور حسن و خوبی کا مرکز رہی ہے ۔ اور زمانہ قبل از تاریخ سے بڑی بڑی سلطنتوں اور پادشاہیوں کا مرکز ہے۔فریدون و سائرسِ اعظم سے لے کر کیکاؤس اور نوشیروان عادل سے لے کر نادر شاہ افشار تک ہر دور میں اس سر زمین نے عدل و مساوات اور جاہ و جبروت کے بے شمار ابواب رقم کیے ہیں۔ ہزاروں سال پر محیط اِس سرزمینِ شاہاں کی عظمتِ رفتہ کے آثار آج تک زندہ و پائندہ ہیں ۔
آمدِ اسلام کے بعد تو یہاں فنِ تعمیرِ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور کئی نابغۂ روزگار عمارات ہائے پُر شکوہ تعمیر ہوئیں جِن کے جاہ و جلال اور حُسن و خوبی کو دیکھ کر دُنیا دنگ رِہ جاتی ہے۔
آئیے آج ہم آپکو ایسی ہی ایک عمارت کی سیر کو لیے چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ایران کے شہر شیراز میں واقع یہ ایک عدیم المثال مسجد ہے جسے دُنیا جامع مسجد نصیر الملک کے نام سے جانتی ہے۔ یہ مسجد شیراز کے “ گود عربان” نامی قدیمی محلہ میں، خیابانِ لطف علی خان ژند کے جنوب میں امام زادہ شاہ چراغ کے قریب واقع ہے۔ مسجِد کی تعمیر قاجار خاندان ( 1794ء تا 1925ء) کے چوتھے حُکمران ناصر الدین شاہ قاجار (1831ء تا 1896ء ) کے دورِ حکومت میں کی گئی۔ اِس کی تعمیر کا آغاز 1876ء میں ہوا اور 12 سال کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں 1888ء میں اِس کی تعمیر کاکام مکمل ہوا۔
یہ مسجد اسلامی و ایرانی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے، اس کا ڈیزائین اُس زمانے کے مانے ہوئے معماروں مرزا محمد حسن اور محمد رضا نے تشکیل دیا۔ مسجد کوایران کے روایتی طرزِ تعمیر کے عین مطابق پچی کاری،، آئینہ کاری اور حسین خطاطی سے مزین کیا گیا ہے۔ اندرونی حصہ گُلابی رنگ کی ٹائیلوں سے مزین ہے جِس کے باعث اسے گُلابی مسجد کے نام سے بھی پُکارا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں کثرت کے ساتھ رنگ برنگ شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے جِس نے اِس کو ایک منفرد دلکشی و رعنائی عطا کی ہے۔ دِن کو سورج کی کرنیں جب ان مختلف الالوان شیشوں سے گُزرکر فرش پر پڑتی ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے قوسِ قزح نے اپنے تمام رنگ بکھیر دیے ہیں۔ اور رات کے وقت جب اندر سے برقی قمقموں کی روشنیاں انہی شیشوں سے چِھن چِھن کر باہر آتی ہیں تو فضا میں رنگ و نور کا میلہ سا لگ جاتا ہے۔ اور دیکھنے والی نگاہ بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطر اندر قطار
اودے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن
مسجد کا ایک محراب نُما صدر دروازہ ہے ، اِس کے علاوہ دو چوبی دروازے ہیں جِن پر مختلف اشعار درج ہیں جِن میں مسجِد کی تعمیر کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ شمالی جانب ایک وسیع و عریض صحن ہے ۔ مسجد میں دو شبستان ہیں اور دو ہی ایوان ہیں جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔ شمالی ایوان ، جنوبی ایوان سے زیادہ خوبصورت ہے۔
مسجد میں ایک بڑی محراب ہے جسے محراب مروارید کہا جاتا ہے اور اِس کے دائیں اور بائیں جانب دو چھوٹی محرابیں ہیں۔
مسجِد تا دمِ تحریر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ جسکا سہرا نصیر الملک فاؤنڈیشن کے سر ہے ۔ ایران کی اکثر تاریخی عمارتوں کی تزئین و آرائیش کا کام اسی فاؤنڈیشن کے ذمے ہے۔