انتیس برس کا انتظار ختم ہوا
پاک ترین ہے وہ ذات، جس کے لیے تمام تر تعریفیں ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی کا 99.86 فی صد مادہ سورج میں مرکوز ہے۔ باقی 0.14 فی صد میں تمام آسمانی اجسام (heavenly bodies) یعنی ستارے، سیارے، شہابِ ثاقب وغیرہ ہیں۔ ایسا ہی ایک جسم ہمارا سیارہ زمین ہے جس پر انسان بستے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ فقط ہمارے نظامِ شمسی کے تناظر میں ہی انسان کی قدر کس قدر کم ہے۔ مگر کبھی کبھی یہی انسان اپنے ساتھی انسانوں کے لیے مکر و فریب کے ایسے جال بنتا ہے کہ اس سیارے کا امن خطرے سے دو چار ہو جاتا ہے۔
ہم بھی کچھ عرصہ قبل ایسی ہی ایک چال کا شکار ہوئے۔ ایک ٹیم یہاں آ کر نیچ پن دکھا گئی اور دوسری نے آنے سے انکار کیا۔ ورلڈ کپ سے قبل یہ دھچکا بہت بڑا تھا۔ سوچ رکھا تھا کہ ورلڈ کپ سے قبل ان ٹیموں سے کھیل کر ورلڈ کپ کی اچھی تیاری ہو جائے گی۔ وہ تیاری دیگر کھلاڑیوں نے امارات میں لیگ کھیل کر کی اور ہمیں اپنے پیارے دیس میں ایک ٹورنامنٹ کھیل کر کرنا پڑی۔
مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ لازم نہیں کہ ہمیشہ سرمایہ دار اور طاغوتی طاقت کی چال کام یاب ہو۔ بسا اوقات نسبتاً کم زور دکھنے والا جب ترنگ میں آئے تو بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے۔ یہی کچھ کل ہوا۔
مقابلہ شروع ہونے سے قبل ناچیز کی رائے یہ تھی کہ بھارت کی جیت کے امکانات ساٹھ فی صد ہیں۔ پر جب شاہین کی برق رفتار گیند نے شرما کو واپسی کا پروانہ تھمایا تو پاکستان کی جیت کا یقین ہو گیا۔ ایک قریبی دوست کو میسج کیا کہ آج تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی، کیوں کہ بابر اعظم کبھی امارات میں بین الاقوامی ٹی ٹونٹی میچ نہیں ہارا۔ خدائے بزرگ و برتر کا جس قدر شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ اس کے فضل و کرم نے الفاظ کی لاج رکھ لی۔
ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا۔ شاہین نے روہت کو پویلین لوٹانے کے بعد ایک ایسی لاجواب گیند کی جس کا جواب راہول کے پاس موجود نہ تھا۔ یادو نے کچھ کھل کر کھیلنا چاہا مگر رضوان کے شان دار کیچ نے معاملہ آسان کیا۔ پنت کے چھکوں نے کچھ پریشان کیا مگر شاداب کی ذہانت نے اس کی باری کو اختتام پذیر کیا۔ جدیجا کی وکٹ حسن نے کمال مہارت سے حاصل کی اور شاہین نے اپنے آخری اوور میں کوہلی کو پویلین واصل کر کے بھارت کی امیدوں کو خوب ماند کیا۔ اوور تھرو پر غصہ تو آیا مگر اب اس کا ذکر کیا کرنا۔ یہاں البتہ حارث کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اس کمال سے اپنے ناقدین کے منہ بند کرنا بہت مشکل کام ہے جسے حارث نے لاجواب انداز سے کیا۔ اعتراف کرتا ہوں کہ اس کے بارے میں میری رائے درست نہیں تھی۔
بلے بازی کا آغاز رضوان کے شان دار چوکے سے ہوا، مگر چوکا تو وہ تھا جو بابر نے لگایا۔ وہ چوکا دیکھ کر میں نے بے ساختہ کہا:
"بابر بلے بازی نہیں، شاعری کر رہا ہے۔"
بابر اور رضوان نے ایک حد تک نسبتاً محتاط انداز اپنایا اور کسی بری گیند کو معاف نہیں کیا۔ یہی رویہ وقت کی ضرورت تھی۔ پھر جہاں موقع ملا، وہاں گیند کو فضائی اور زمینی راستے سے رسی کے پار پہنچایا۔ یہی وہ خصلت تھی جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ اسی لیے ایک عرصے سے ناچیز کی رائے یہ ہے کہ اوپننگ کے لیے رضوان اور بابر کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی فی الوقت کبائرِ کرکٹ میں داخل ہے۔ جس خوب صورتی سے بابر اور رضوان نے میچ پاکستان کی جھولی میں ڈالا، اس خوب صورت انداز پر دیوانوں کے دیوان کہے جا سکتے ہیں۔ رضوان اپنی اصل میں ایک داستان ہے۔ ایسی داستان جو محنت، لگن، قوتِ ارادی اور سب سے بڑھ کر عاجزی و انکسار سے عبارت ہے۔
شاعرِ مشرق نے فرمایا تھا:
یقینِ محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
ہمارے دلوں میں ایسی محبت موجود ہے جو دنیا فتح کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ہمارے ہم سائے کے مقتدر حلقوں کی روش البتہ اس سے سوا ہے۔ تاہم کل مقابلے کے اختتام پر کوہلی، شاستری اور دھونی کا رویہ بہت اعلیٰ اقدار کا حامل رہا۔ کمنٹری باکس میں گواسکر اور ہارشا نے بھی خوب خاندانی پن دکھایا۔ تعصب کل کسی کے قریب نہ پھٹکا۔ کاش یہ رویہ بڑھوتری پائے اور ہمارے خطے میں امن و استحکام کی فضا کی نشوونما ہو۔
بہ ہر حال ، تمام احباب کو فتح بہت بہت مبارک ہو۔ خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور پاکستان کو بھارت کے خلاف ورلڈ کپ میں جیت نصیب ہوئی۔اس فتح کی داستان آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ خدا جسے چاہے، عزت سے نوازے۔ جو کام عمران خان جیسا لاجواب کپتان نہ کر سکا، وہ بابر جیسے نوخیز کپتان نے کر دکھایا۔ لکھ رکھیں کہ چودہ نومبر کو ورلڈ کپ ٹرافی بابر کے سوا کسی اور کپتان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ خدائے رحمن و رحیم کی بارگاہِ لم یزل میں دعا ہے کہ وہ ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی لاج بھی رکھ لے، جیسے اس نے کل اس حقیر کے الفاظ کی لاج رکھی۔ آمین
پس نوشت: کچھ دنوں سے سوشل میڈیا سے دور ہوں۔ مصروفیات زیادہ ہیں۔ مسائل گوناگوں ہیں، ذاتی بھی اور گھریلو بھی۔ کرکٹ، سوشل میڈیا، گپ شپ - - - اس سب سے کسی قدر جی اچاٹ ہے۔ کل میچ جیتنے کی خوشی تھی۔ پھر کچھ دوستوں نے اصرار کیا تو یہ چند سطریں آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ غیر حاضری ابھی طویل نظر آتی ہے، جس کے لیے بندہ معذرت خواہ ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ والسلام علیکم