جنگ ستمبر1965: جنگ کی اصل وجوہات کیا تھیں؟
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ رہے گا یا پھر پاکستان کی شہ رگ؟ اس معاملےکے تصفیے کو برصغیر کے دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔انہی جنگوں میں سے ایک جنگ انیس سو پینسٹھ کی ہے، جس کی فتح کو دونوں حریف اپنے نام گردانتے ہیں۔ بھارت اس جنگ کو اپنے نام لکھتا ہے کہ اس نے پاکستان کو اپنا اٹوٹ انگ کشمیر نہیں دیا۔ پاکستان اس جنگ کو اپنے شہیدوں کے لہو سے لکھی وہ فتح قرار دیتا ہے جس میں سرحد کے محافظوں نے اس کی زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں کا کامیابی سے دفاع کیا اور دشمن کے لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے بچایا۔ تاریخ کے صفحات میں دونوں حریفوں کے موقف تفصیل سے درج ہیں۔ فی الحال اس تحریر میں ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم جنگ کے ان واقعات کو قید و بند سے آزاد کر کے اس بات کا فیصلہ کریں کہ کون فتح یاب رہا اور کون نہیں۔ کیونکہ ہم تاریخ دان ہی ہیں اور نہ اس جنگ کے چشم دید گواہ۔ ہم تو آج صرف ان چنگاریوں کا تذکرہ کرنے نکلے ہیں، جنہوں نے چھے ستمبر کو سترہ دن کی جنگ کا آلاؤ جلا دیا۔
1۔ بھارت کی کشمیر نگلنے کی کوششیں:
انیس سو پینسٹھ کے آتے آتے، اقوام متحدہ کی قرارداد کو سترہ برس بیت چکے تھے۔ اس دوران وقت انگڑائیاں لیتا ، رفتہ رفتہ بھارت کی سب بد نیتی کھولتا رہا۔ انیس سو اڑتالیس میں اقوام متحدہ کا کمیشن بنا، اقوام متحدہ کے نمائندے اوین ڈکسن اور فرینک پی گریہم آئے، پاکستانی حکومت کی جانب سے بارہا مسئلہ بات چیت سے حل کرنے کی کوششیں ہوئیں، لیکن بھارت رفتہ رفتہ ایسے اقدام لینے لگا جس سے وہ نظر بچا کر کشمیر کو اپنی ایک ریاست بنا لے۔ پہلے پہل تو اس نے انیس سو پچاس میں کشمیر کو اپنی ایک خاص ریاست قرار دیا جس کا دفاع، خارجی امور اور مواصلات کا نظام تو اس کے ہاتھ میں تھا لیکن باقی چیزوں میں کشمیر خود مختار تھا، پھر انیس سو تریپن کو شیخ عبداللہ کو اس کیے قید کر دیا کہ اس نے کشمیر کے بھارت میں مکمل طور پر ضم ہونے کی مخالفت کی، پھر بھارت نواز اراکین پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے کشمیر کا آئین تیار کروایا جس میں کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہش کے بر خلاف بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا، پھر بھارتی سپریم کورٹ کو کشمیری لوگوں کے لیے فیصلے کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ،پھر بھارت کےآئین میں ترمیم ہوئی اور کشمیری صدر کو گورنر اور وزیر اعظم کو بھارتی حکومت کے ماتحت وزیر اعلیٰ قرار دے دیا گیا۔
بھارت کے ان سب عزائم نے جنرل فیلڈ مارشل ایوب خان جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے، کو وہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا جس پرانہیں بہت عرصے سے ان کے وزیر خارجہ زلفقار علی بھٹو اور جنرل اختر ملک آمادہ کر رہے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دوران پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان براہ راست کشمیر کے حوالے سے بات چیت نہیں ہوئی تھی، ایسا متعدد بار ہوا تھا لیکن سب بھارت کی بد نیتی کے آگے بے کار تھا۔
2- رن آف کچھ کا کامیاب معرکہ:
کشمیر کا مسئلہ بذریعہ طاقت حل کرنے کا آپشن بہت دیر سے پاکستانی حکام کے پیش نظر تھا۔ لیکن یہ خدشہ تھا کہ کہیں بھارت اپنی عسکری قوت کے ذریعے پاکستانی افواج کو شکست نہ دے۔ لیکن پھر اپریل انیس سو پینسٹھ کو رن آف کھچ کی جنگ ہوئی۔ جس میں پاکستانی افواج نے نا صرف بھارت کے علاقے پر قبضہ کر لیا بلکہ اس کو اپنی شرائط پر جنگ بندی پر آمادہ بھی کر لیا۔ رن آف کچھ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان دلدلی علاقہ ہے۔ اپریل انیس سو پینسٹھ میں اس پر بھارتی اور پاکستانی افواج کے درمیان جھڑپ ہو گئی۔ گو کہ بعد میں جنگ بندی ہو گئی لیکن بھارت جنگ بندی کے لیے ان شرائط پر مان گیا جو اس کے مفاد میں نہیں تھے۔ اس سے پاکستانی حکام پر بھارت کی کمزوری عیاں ہوئی جس سے انہیں کشمیر میں کو مہم جوئی کا حوصلہ ملا۔
3- آپریشن جبرالٹر:
انیس سو ساٹھ میں اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل فیلڈ مارشل ایوب خان، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹواور آرمی چیف جنرل موسیٰ خان کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں بھٹو نے آرمی چیف اور صدر دونوں کو کشمیر کا مسئلہ عسکری قوت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ جنرل ایوب اور جنرل موسیٰ دونوں نے بھٹو کی تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ جنرل موسیٰ نے بتایا کہ پاکستانی افواج بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ بھارتی افواج پاکستان سے کئ گناہ بڑی ہے۔ پاکستان اپنے ہتھیاروں کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار کرتا ہے جبکہ بھارت کے پاس اپنی اسلحہ تیار کرنے والی فیکٹریاں ہیں۔ لیکن آئیندہ آنے والے حالات نے جنرل موسیٰ اور ایوب دونوں کو اس پر آمادہ کیا کہ کشمیر میں عسکری اقدام ممکن ہے۔ اس کے لیے انیس سو باسٹھ سے فوج کے بارہویں ڈویژن کے کمانڈر ،جنرل اختر ملک کے منصوبے کو چنا گیا۔ اس اقدام کو آپریشن جبرالٹر کا نام دیا گیا اور مئی انیس سو پینسٹھ میں اس کی خفیہ طور پر تیاری شروع کر دی گئی۔ اس منصوبے کو تین مراحل میں اپنے انجام کو پہنچنا تھا۔
پہلے مرحلے میں پاکستان کے فوجیوں نے عام مجاہدین کی شکل میں کشمیر میں داخل ہونا تھا اور بھارت کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم پر حملے کر کے اسے کمزور کرنا تھا۔
دوسرے مرحلے میں ان مجاہدین کو مقامی کشمیری آبادی کی امداد کرنا تھی کہ وہ بھارتی افواج کے خلاف کھڑی ہو جائے۔
تیسرے مرحلے میں پاکستانی افواج کو کشمیری لوگوں کے ساتھ مل اس کو بھارت سے آزاد کروا لینا تھا۔
اس آپریشن کے لیے چھے مختلف دستے تشکیل دیے گئے اور ہر دستے کا نام ایک مسلمان جرنیل کے نام پر رکھا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ چودہ ایسے دستے بھی تشکیل دیے گئے جنہیں بھارتی افواج کو Cease Fire Lineپر مصروف کرنا تھا تاکہ باقی چھے دستے خفیہ طور پر کشمیر میں داخل ہو سکیں۔ شروع شروع میں تو یہ آپریشن کامیابی سے ویسا ہی ہوا جیساسوچا گیا تھا لیکن پھر دو ایسے واقعات ہوئےجس سے آپریشن میں مشکلات ہونے لگیں۔ ایک تو کشمیر کے اندر سے پاکستانی سپاہیوں کو وہ امداد نہ مل سکی جیسی خیال کی گئی تھی اور دوسرا یہ منصوبہ خفیہ نہ رہ سکا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ غزنوی نام کا دستہ جو جموں کو آزاد کروانے گیا تھا، اپنے مشن میں کامیاب رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ باقی پانچ دستے اپنے مشن میں پسپائی اختیار کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے نشانے پر آ گئے۔ یہ آپریشن ناصرف نا کام ہوا بلکہ بھارت نے آزاد کشمیر کے علاقوں پر حملے بھی شروع کر دیے۔
4- آپریشن گرینڈ سلیم:
آپریشن جبرالٹر تو ناکام ہو گیا لیکن بھارتی افواج کے دو مقاموں پر مصروف ہونے کے باعث، پاکستانی
افواج کو یہ موقع ملا کہ وہ اخنور پر قبضہ کر کے بھارت کی سپلائی لائن کاٹ دیں اور کشمیر میں باقی رہ جانے والے آپریشن جبرالٹر کے سپاہیوں اور کشمیری عوام کی مدد سے بھارتی افواج کو تباہ کر ڈالیں۔ جنرل اختر کے اس منصوبے کو آپریشن گرینڈ سلیم کا نام دیا گیا جو اپنی کامیابی کے بہت قریب جا کر جرنیلوں کی آپسی گیم آف تھرون کی زد میں آ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب فوج کی بارویں ڈویژن انتہائی کامیابی سے اخنور کی طرف بڑھ رہی تھی ، جنرل موسیٰ نے اختر ملک کو ہٹا کر ساتویں ڈویژن کے کمانڈر یحیٰی خان کو بارویں ڈویژن کی کمان سونپ دی۔ اس سے ایک تو سپاہیوں میں ہلچل مچی اوردوسرا یحیٰی خان نے فوج کی پیش قدمی بھی رکوا دی۔ اس نے دشمن کو موقع فراہم کیا کہ وہ منظم ہو کر اخنور کے دفاع کو پہنچ جائے۔
بھارت نے اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور نہ صرف اخنور کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ لاہور، سیالکوٹ اور قصور کے مقامات پر انٹر نیشنل بارڈر بھی کھول دیا۔
اس طرح سترہ دنوں پر محیط پینسٹھ کی جنگ چھڑی، جس میں پاک افواج نے کامیابی سے بین الاقوامی سرحدوں کا دفاع تو کیا لیکن کشمیر ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کامیاب دفاع کی بنا پر پاکستان اسے اپنی فتح گردانتا ہے۔