سترہ (17) لفظوں میں خوشی کا راز
برلن کی ایک ٹرام (ایک قسم کی ریل گاڑی) میں عجیب وغریب حلیے کا حامل ایک مسافر محو سفر تھا۔ لمبے لمبے بکھرے ہوئے بال اور بے ترتیب موچھوں والا شخص خلاؤں میں گھورتا ہوا اپنی ہی سوچوں میں مگن تھا جب کنڈکٹر اس کے پاس آیا اور کرائے کا تقاضا کیا تو مسافر نے اپنی ہی دنیا کھوئے ہوئے کچھ ریزگاری جیب سے نکالی اور گن کر کنڈکٹر کے حوالے کر دی ۔
کنڈکٹر جب جانے لگا تو اس مسافر نے اسے روکا اور کہا کہ شاید اس نے رقم پوری نہیں دی ۔ کنڈکٹر رک گیا۔ اس نے دوبارہ ریزگاری کی گنتی کی ۔ ریزگاری پوری تھی ۔ کنڈکٹر نے ریزگاری مسافر کو دوبارہ گننے کے لیے دیتے ہوئے کہا:
" میرا خیال ہے کہ آپ کو گنتی نہیں آتی"
کیا آپ جانتے کہ وہ مسافر کون تھا۔۔۔وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ دور جدید کا سب سے بڑا ریاضی دان البرٹ آئن سٹائن تھا ۔جس نے صرف علم ریاضی کو بروئے کار لاتے ہوئے کائنات کے وہ سربستہ راز کھولے جو صدیوں کی مجموعی سائنسی تحقیق سے بھی شاید زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ جس نے توانائی اور مادے کے درمیان رابطے کی گمشدہ کڑی محض ایک چھوٹی سی مساوات کے ذریعے ڈھونڈ نکالی۔ قدرت کے بھیدوں کو ہندسہ در ہندسہ مساوات در مساوات آشکار کرنے والا یہ عظیم سائنسدان اپنی عملی زندگی میں اس قدر سادہ تھا کہ ایک کنڈکٹر اسے دیکھ کر سمجھتا ہے کہ شاید اسے ٹھیک سے گنتی بھی نہیں آتی ۔سائنس کی دنیا میں تو آئن سٹائن 'نظریہ اضافیت' کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن آج ہم آپ کو ان کے 'نظریہ مسرت' کے بارے میں بتانے والے ہیں۔
1922ء میں آئن سٹائن ایک لیکچر کے لیے جاپان کی طرف سفر کیا۔ ان کو ایک سال قبل طبیعات (فزکس) کی میدان میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ایک دن انھوں نے ہوٹل میں کھانے کے بعد خادم(بیرے) کو ٹِپ (انعامی رقم) دینے کے بجائے اپنے آٹوگراف کے ساتھ ایک کاغذ تحفے میں دیا۔یہ کاغذ (آٹوگراف) 2017ء دس لاکھ چھپن ہزار ڈالر میں نیلام ہوا۔اس میں ایک جملہ لکھا ہوا تھا (آئن سٹائن نے وہ اپنی زبان یعنی جرمن میں لکھا تھا):
"A calm and modest life brings more happiness than the pursuit of success combined with constant restlessness."
یعنی مسلسل بے چینی کے ساتھ حاصل کی گئی کامیابی کے برعکس ایک پُرسکون (مطمئن) اور معتدل زندگی زیادہ خوشی اور مسرت (کا پیغام) لاتی ہے۔
آئن سٹائن نے 17 لفظوں میں زندگی میں خوش رہنے کا راز(نظریہ مسرت) بتا دیا۔ہماری آج کل کی زندگی اس قدر چکا چوند اور ظاہری چمک دمک میں الجھ کر رہ گئی ہے کہ ہم مہنگی سے مہنگی چیز استعمال کر کے بھی مطمئن نہیں ہوتے ۔ہم قناعت سے جس قدر دور ہوتے جا رہے ہیں حقیقی خوشی اور سکون قلب اسی قدر ہماری دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں ۔ آئن سٹائن ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے کرہ ارض پر اپنے دماغ کا سب سے زیادہ استعمال کیا ، وہ بھی خوشی اور مسرت کو قناعت اور اعتدال کے ساتھ گزاری زندگی سے جوڑتا ہے۔
مزید پڑھیے : کیا آپ خوش رہنے کا منفرد طریقہ جاننا چاہتے ہیں؟
ذرا سوچیے! کیا آپ نے کبھی پیاسے سمندر یا ہانپتی ہوا کے بارے میں سنا ہے؟ یا آپ نے کبھی یہ محسوس کیا ہو کہ آسمان تنگیء داماں کا شکوہ کرتے ہوئےاپنی حدوں سے نکلنے کے لیے بے تاب ہورہا ہے یا قوسِ قزح ہفت رنگ سے مزید رنگوں کی خواہش مند ہو، نہیں نا! بھلا ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیے خدا سے مزید طلب سے قبل اس کی عطا شدہ نعمتوں پر غور کیجیے۔ اور ضرورت سے زائد کی چاہت میں خود کو ہلکان مت کیجیے۔ اپنی خواہشات کو ضروریات پر غالب مت آنے دیجیے کیوں کہ اگر ایسا کریں گے تو ایک دن ایسا آئے گا جب آپ اپنی خواہش کی تکمیل کے چکر میں اپنی ضرورت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بقول شاعر
راضی بہ رضا ہوتے ہیں اربابِ قناعت
وہ اپنا بھرم دستِ طلب سے نہیں کھوتے
زندگی میں خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں نہ پیدا کیجیے اور سادہ زندگی گزاریے۔ خوش رہیے اور خوشیاں بانٹیے۔
زندگی میں آسانیاں اختیار کی جیے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف حاصل کی جیے ۔ جیسا کہ اشفاق احمد مرحوم دعا کیا کرتے تھے ۔