12 ربیع الاول: یوم میلاد النبی ﷺ پر اپنا محاسبہ کیجیے۔۔۔کیا ہم واقعی سچے عاشق رسول ﷺ ہیں؟

آج کا دن مبارک دن جب رحمت دو عالَم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔۔۔خدا نے اُن کو سب سے زیادہ تعریف وتحسین کے قابل بنایا۔۔۔وہ جس کی اطاعت کی جائے، جس کا کہا مانا جائے۔۔۔جس کا دن رات چرچا ہو۔۔۔دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود صرف اس کی  محبت، اطاعت اور اتباع میں مضمر قرار دے دی گئی۔۔۔ان پر کروڑوں  درودوسلام۔۔۔لیکن  ذرا رُکیے!

آج 12 ربیع الاول ہے۔۔۔ ہرمسلمان  اپنی ہمت اور بساط کے مطابق  ہمارے رہبر اور رہنما ، ہادی  دو سرا ، سید الانبیا ﷺ سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار میں مصروف ہے۔ بالکل ٹھیک بات ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی وقت کی ضرورت بھی ۔ مگر ذرا  رُکیے ۔۔ کیا ہم  واقعی  حضور ﷺ سے سچی محبت کرتے ہیں ۔۔۔۔؟

ایک منظر ملاحظہ کیجیے۔۔۔!

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  اللہ کے نبی  ﷺکے غلام تھے ۔ آزاد کر دئے گئے ۔ مگر انہیں آزادی  پسند  ہی نہیں آئی ۔ آزاد ہو  کر بھی حضور ﷺ کی غلامی  میں رہنا قبول کیا ۔ 10 سال  اس عظیم انسان کی خدمت میں گزار دیے کہ ایمان کی حالت میں جسے دیکھنے والی آنکھوں پر آگ حرام تھی ۔ ذرا سوچیے اس کی معیت میں دس سال ۔ فرماتے ہیں میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ان کے لئے کام کیا ۔ دس سال میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اللہ کے نبی نے مجھے جھڑکا ہو، ڈانٹا ہو یا کسی کام پر یہ کہا ہو کہ یہ کیوں کیا ۔۔ ۔!

دوسرا منظر ۔۔۔!

کسی نہ کسی حالت میں آپ اور میں بھی آقا ہیں اور شایدہمارے ماتحت بھی کچھ لوگ کام کرتے ہیں ۔ فرض کریں اگر آپ باپ ہیں تو بچے  ماتحت ، خاوند ہیں تو بیوی ما تحت ، دفتر میں افسر ہیں تو نچلے درجے کے لوگ ماتحت ۔ ۔۔

ذرا سوچیے !

ہمارا اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے۔۔۔؟ کیا ہمارا رویہ واقعی ایک سچے عاشقِ رسول ﷺ جیسا ہے۔۔۔؟

اب ایک نظر اپنے گریبان  میں جھانکیں اور سوچیں کہ آیا  آپ بھی اپنے ماتحتوں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو اللہ کے نبی ﷺ کی سنت ہے۔۔۔کہیں آپ اپنے بچوں کو ، بیوی کو اور ماتحتوں کو بات بات پر جھڑکتے تو نہیں ہیں ؟ کہیں آپ ڈانتتے تو نہیں ہیں ؟ لوگوں پر غصہ کرنا آپ کی عادت تو نہیں ہے؟ کیا سنت رسول ﷺ کی پیروی میں ایک دن ایسا گزار سکتے ہیں کہ آپ اپنے سارے ماتحتوں سے حسن سلوک کریں مسکرا کر بات کریں غلطی ہو جائے تو پیار سے سمجھائیں ڈانٹیں نہیں ؟

تیسرا منظر۔۔۔!

اگر نہیں تو ایک بار پھر سوچیں کہ جس نبی کی سنتوں کا عکس آپ کے کردار میں نظر نہیں آتا کیا اس سے محبت کا آپ کا دعوی ٹھیک ہے؟ شاعر  کہتا ہے

تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا

آپ نے شہر سارا سجا دیا نبی ﷺ کی محبت میں۔۔۔ذرا سوچیے ! جو پیسہ شہر سجانے میں استعمال کیا وہ سار ا حرام  کا تو نہیں تھا۔۔۔ کہیں لوگوں کو دھوکا دے کر تو اکٹھا نہیں کیا ۔ وہ  جھوٹ بول کرتو نہیں کمایا۔ ۔۔۔۔کیا ہم اپنے ہمسائیوں کی خبرگیری کرتے ہیں  کہ کہیں وہ بھوکا تو نہیں۔۔۔۔کوئی مجھ سے تنگ تو نہیں۔۔۔؟ کیا میں بھی اپنے نبی ﷺ کی طرح لوگوں کے لیے باعثِ رحمت ہوں۔۔۔۔؟ انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوں؟۔۔۔سوچیے گا ضرور !

اس لئے آج کے دن ہمیں اپنی محبتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم جو دعوی کر رہے ہیں اس میں سچے ہیں ؟ کیا ہمارا کردار ہمارے دعوے سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ؟

اگر نہیں۔۔۔۔

 تو کیا میلا دالنبی  ﷺاور محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا نہیں کہ ہم نبی کے حسن اخلاق کی سراپا تصویر بننے کی کوشش کریں ۔ ایک بہت مشہور قول ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارا کردار اس شان کا ہو کہ کافر دیکھیں اور سوچیں کہ اگر امتی اس کردار کا حامل ہے تو خود امت بنانے والے کا کردا کیسا ہو گا ۔ وہ مسلمان ہو جائے ۔ لیکن افسوس آج ہمارے کردار کی حالت یہ ہے کہ  اسے دیکھ کر جو پہلے سے مسلمان ہین وہ بھی کافر ہو نے لگتے ہیں ۔۔ ۔

حضور ﷺ کے سچے غلام، سچے عاشق اور سچے وفادار بنیے۔۔۔ہمارے لیے ہردن حضورﷺ کا دن ہو۔۔۔مجھے محترم جاوید غامدی کے الفاظ کانوں میں گونج رہے ہیں؛

” وہ جس کی یاد کی شمعیں ہر دل میں فروزاں رہنی چاہئے اور جس کا نام جب دن پہلو بدلے ، ہر مسجد کے مناروں سے بلند ہونا چاہیے ، یہ اُس کی شان سے فروتر ہے کہ اُسے ایک یوم میلاد اور ایک ماہ ربیع الاول کی شخصیت بنایا جائے۔ وہ عزیز از جاں اور عزیزِ جہاں ایک دن اور ایک مہینے کی شخصیت نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہر دن ، ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے ، اِس لیے نہ ’ عید میلاد النبی ‘ نہ ’ جشن ربیع الاوّل ‘ ، بلکہ صبحِ دم ، دن ڈھلے ،’ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ ‘ ، ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ : ’ أشہد أن لا إلٰہ إلّا اللّٰہ ، أشہد أن محمدً رسول اللّٰہ  ‘

 

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

 

بہار ہو کہ خزاں ، لاالٰہ الا اللہ “

 

متعلقہ عنوانات