12 ربیع الاول: میلاد النبی ﷺ پر خصوصی تقریر
پیغامِ حق جہاں کو سنایا رسول ﷺ نے
جنابِ صدر!
آئیے چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں جب دور پتھر کا تو نہ تھا مگر اس سے بھی بدتر تھا، جب دور غاروں کا تو نہ تھا مگر انسان قعرِ لِ مذلّت میں گر چکاتھا۔اس خاکدانِ گیتی پر بسنے والے انسانوں میں کون سی برائی موجود نہ تھی، عرب کی حالت تو اس درجہ خراب ہوچکی تھی کہ شراب پانی کی طرح استعمال ہورہی تھی۔ قمار بازی شب و روز کی تفریح تصور کی جاتی تھی۔ کبر ونخوت اورغرور و تکبر سے سر اونچا رکھنے والے انسان لڑکیوں کو زندہ در گور کرکے اپنی بہیمانہ عادتوں کا مظاہرہ کرتے تھے اور فخر ومباہات سے اپنا سر اْٹھایا بھی کرتے تھے۔ ان درندہ صفت اور بہائم نماانسانوں کا کوئی بھی حکمراں ایسا نہ تھا جو ان کے قاتلانہ اقدامات پر ان کی سر کوبی کرتا یا سزاے موت مقرر کرتا۔ معاملہ تو یہ تھا کہ حاکم و محکوم دونوں ہی اِن برائیوں میں بْری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ عرب کے لوگ ہر طرح کی بْرائیوں اور مذموم و ناشائستہ حرکتوں کو روا سمجھتے تھے۔ ظلم و عدوان، بغاوت و سرکشی، بے رحمی و سنگ دلی، شقاوت و بربریت، افعالِ رذیلہ کا ارتکاب، نسلی و نسبی تفاخر و عصبیت، اپنے مقابل دوسروں کو ذلیل و حقیر سمجھنا، معمولی معمولی باتوں پر فتنہ و فساد برپا کرنا، پھر قبیلوں کی باہمی جنگ صدیوں تک جاری رکھنا ان کی فطرتِ ثانیہ میں داخل تھا۔ غرض درندہ خْو بہائم صفت انسانوں کا ایک ریوڑ تھا جو اَخلاق و اِخلاص، تہذیب و تمدن تو درکنار ان کے نام سے بھی ناآشنا تھے۔ خیابانِ ہستی اجڑا پڑا تھا۔ خزاں کی چیرہ دستیوں سے گلوں کی نکہت افشانیوں اور عنادل کی نغمہ ریزیوں کی یاد تک بھی گل دستہ طاقِ نسیاں بن چکی تھیں۔ روشیں ویران تھیں اور آب جوئیں خشک، جہاں کبھی سبزہِ نَو دمیدہ جنت نگاہ ہوا کرتا تھا وہاں خاک اْڑ رہی تھی، یاس و قنوط کی ہمہ گیر کیفیت طاری تھی کہ اچانک فاران کی چوٹیوں سے
”پیغامِ حق جہاں کو سنایا رسول نے“
سامعین باتمکین!! اس تمہیدی گفتگو سے سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہی آج میری تقریر کا عنوان ہے۔عزیزانِ گرامی قدر!! فاران کی چوٹیوں سے وحدت کی وہ گھنگور گھٹا اْٹھّی جس کا ہر قطرہ بہار آفریں اور جس کا ہر چھینٹا فردوس بداماں تھا۔ یہ گھٹا برسی اور خوب دل کھول کر برسی یہاں تک کہ گل زارِ عالم میں پھر آثارِ حیات نمودار ہونے لگے۔ انسانیت کے پژمْردہ چہرے پر شباب و قوت کی سرمستیاں ظہور پذیر ہونے لگیں۔ خودداری و عزتِ نفس اورشجاعت و ایثار کے افسردہ درختوں کی عریاں شاخوں کو از سرِ نَو خلعتِ برگ و بار عطا ہوئی۔ قْمریوں نے عفتِ قلب و نظر کا نغمہ چھیڑا، توہمات و عقائدِ باطلہ کے قفَس کی تیلیاں ایک ایک کرکے ٹوٹیں اور ہْماے بشریت کو توحید اور پیغامِ حق کی مقدس و مطہر رفعتوں سے پھر دعوتِ پرواز آنے لگی کہ
کیسا انسان و ہ پیدا ہوا انسانوں میں
خون توحید کا دوڑا دیا شریانوں میں
گونجا فاران سے جب نعرہ اللہْ احد
کھلبلی مچ گئی دنیا کے صنم خانوں میں
اور
اک عرب نے آدمی کا بول بالاکردیا
خاک کے ذروں کو ہم دوشِ ثریا کردیا
اتر کر حرا سے سوے قوم آیا
اک نسخہِ کیمیا ساتھ اپنے لایا
سامعین کرام!! جب کائناتِ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو جو تہذیب وتمدن سے نا آشنا تھے، رسولِ کونین نے پیغامِ حق سنایا تو جانتے ہو کیا ہوا؟ کفر وشرک کی ظلمتیں کافور ہوگئیں۔ جہالت و حماقت کا اندھیرا چھٹ گیا۔ درندگیت و بہمیت یکسر نیست و نابود ہوگئیں۔ ظلم و تعدی اور کبر ونخوت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں اور ظلمتوں کو ویران گوشوں اور عمیق غاروں کی اندھیریوں کے سوا کہیں پنا ہ نہ ملی۔ ان عادی مجرموں کے عشرت کدوں میں صفِ ماتم بچھ گئی جو رات کے گھپ اندھیروں میں قمار بازی کا بازار گرم رکھا کرتے تھے اور جو صدیوں سے لڑ رہے تھے، وہ متحد و متفق ہو کر رشتہِ اخوت میں منسلک ہوگئے۔ بہائم صفت اور درندہ خوانسانوں کی وہ فطرت جس پر صدیوں سے جہالت مسلط تھی اور بغض و کدورت کی وحشیانہ ظلمت چھائی ہوئی تھی۔ اْن پرعدل و انصاف، محبت و اخوت اور ایمان و صداقت کا بسیرا ہوگیا۔ خالقِ مطلق جل شانہ کی جانب سے مبعوث فرمودہ ہادیِ برحق، مصطفیٰ جانِ رحمت کی منور و درخشاں کرنوں اور فروزاں فروزاں سیرت و کردار کی روشنی میں لوگ رْشد و فلاح کی راہ ڈھونڈنے لگے، وحشی و ظالم انسان نہ صرف تہذیب و اَخلاق کا پیکرِ کامل بن گئے بل کہ تمام کائنات کے لیے معلمِ اَخلاق بھی بن گئے۔ رسولِ اکرم کے ذریعے سنائے گئے پیغامِ حق نے ان کے اندر عظیم الشان تغیر پیدا کردیا اور وہ حیوانیت کے ریوڑسے نکل کر انسانیت کی منور و معطر شاہ راہ پر گامزن ہوگئے۔ پیغامِ حق نے انھیں اَخلاق کی وہ تلوار عطا کردی جسے لے کر وہ جس میدان میں نکلے اسے فتح کرلیا۔ انھوں نے تمام اقوام و ملل کے قلوب و اذہان مسخر کرلیے۔اور حال یہ ہوگیا کہ انھوں نے خداوندِ قدوس کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی خواہشات کو کچل کر رکھ دیااور اپنی جانی ومالی قربانیاں پیش کرنے لگے۔اور روز افزوں بڑھتے رہے پھلتے پھولتے رہے اور ایسا ہواکہ
محترم حضرات!!”رکتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا“
یہ ہمہ گیر، آفاقی، متنوع اور ہمہ جہت انقلابی تغیرات کیوں اور کیسے ہوئے،محض مصطفیٰ جانِ رحمت کی سادگی، اَخلاقِ حسنہ، پیغامِ حق اور پاکیزہ تعلیمات کی وجہ سے ہوئے آپ نے اس انداز سے انسانوں کو انسانیت کادرس دیا۔آپ نے جینا سکھایا، آپ نے مرنا سکھایا،آپ نے رونا سکھایا،آپ نے غم سہنا سکھایا، آپ نے باپ بن کر، بیٹا بن کر، سپہ سالار بن کر، سپاہی بن کر،بادشاہ بن کر،رعایا بن کر،حاکم بن کر، محکوم بن کر،دوست بن کر، عبد بن کر، تاجر بن کر، صادق بن کر، امین بن کر،غرض کہ ہر ہر روپ میں ہمیں ابدی پیغام دیا۔
جنابِ صدر، اس طولانی موضوع کو میں ان اشعار پر ختم کروں گا۔
طیبہ کے تاجدار نے دی زندگی نئی
وہ آئے اور پھیل گئی روشنی نئی
قرآن میں حیات کا وہ فلسفہ دیا
جس کے سبب جہاں کو ملی زندگی نئی
ہم کو دیا نبی نے مساوات کا سبق
انسان کے شعور کو دی زندگی نئی
اَخلاق اور صدق کا جذبہ عطا کیا
بخشا اصولِ امن نیا آشتی نئی
خْلقِ نبی سے ہم کو ملا درسِ نظم و ضبط
انسان دوستی کی ملی چاشنی نئی
کردارِ مصطفیٰ نے سکھایا ہمیں یہی
اوروں کے کام آؤ ملے گی خوشی نئی