کیا اسلام مغرب کا دشمن ہے؟ از تمارا سن
ہمیں بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ کون سی کتاب اچھی ہے اور کون سی بے فائدہ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم کوئی سی کتاب اٹھا کر کچھ بھی رائے بنا سکتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے تمارا سن کی کتاب "کیا اسلام مغرب کا دشمن ہے؟" پڑی ہے۔ اچھے برے کا فیصلہ کرنا میرا حق ہے لیکن اس فیصلے پر دوسرے کو مطمئن کرنے کے لیے اولاَ تو یہ ضروری ہے کہ کتاب میں نے پڑھی ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ میں نے کتاب سمجھ کے پڑھی ہو اور یہ بھی کہ مندرجات پر سوچنے کی زحمت بھی گوارا کی ہو۔
137 صفحات پر مشتمل یہ کتاب "پولیٹی پریس، یو کے" والوں نے 2016 میں شائع کی ہے۔ باہر کی کتابیں مہنگی ہوتی ہیں، یہ بھی مہنگی کتاب ہے لیکن مجھے یہ کتاب یو ایم ٹی لاہور کی لائبریری سے مستعار ملی ہے۔ کتاب کی مصنفہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور اْن کے ہاں اسلام پر ایک سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور آخرِ کتاب میں ہر باب سے متعلق مزید مطالعہ کے لیے کتب تجویز کی گئی ہیں۔
باب اول میں القاعدہ، داعش، بوکوحرام اور ایران کی مغرب مخالفت پر لکھا گیا ہے اور دوسری طرف مغرب میں اسلام کے خلاف لکھنے والوں اور اسلام کو مغرب کا دشمن سمجھنے والوں کا ذکر ملتا ہے۔ اِس باب کے آخر میں مصنفہ نے گیلپ سروے اور حماس، اخوان، النہضہ وغیرہ کی القاعدہ و داعش کے حملوں کے خلاف بیانات نقل کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام مغرب کا دشمن نہیں ہے۔ مغرب دشمنی صرف القاعدہ وغیرہ کی سوچ ہے۔ کتاب میں جگہ جگہ یہ اشارے ملتے ہیں کہ مصنفہ اسلام کی عالمگیریت اور ایک عالمگیر اسلامی نظامِ حکومت کو مغرب کی دشمنی سمجھتی ہے اور اسلام کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اب عالمگیر ہونا نہیں چاہتا۔
باب دوم میں ایرانی انقلاب، کویت جنگ اور بعدازاں امریکی فوجیوں کا عرب میں تعینات ہونے کا ذکر شامل ہے۔سعودیہ عرب میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر القاعدہ نے امریکا کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیا۔ بقول مصنفہ، القاعدہ کو اس بات کا غصہ تھا کہ سعودیہ عرب نے کویت سے محفوظ رہنے کے لیے القاعدہ کے بجاے امریکی فوجیوں سے کام کیوں لیا۔ مصنفہ کا یہ بیان کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اسی کتاب میں مصنفہ نے جگہ جگہ ذکر کیا ہے کہ القاعدہ کو حرمین شریفین کا، امت کی وحدت اور اسرائیل کی حمایت حاصل کرنے کی امریکی کوششوں سے مسئلہ تھا۔ اِ س باب میں القاعدہ کے طریقہ کار پر بھی بحث ہوئی ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ کا جنگی طریقہ غیر اسلامی ہے۔ کیونکہ گوریلا جنگ کے اصول اور ضوابط انہوں چیئرمین ماؤ اور چے گویرا سے اخذ کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہادیوں سے مغرب اور اسلام کو یکساں خطرہ ہے۔ القاعدہ وغیرہ کی کارروائیوں کا ہدف زیادہ تر مسلمان بنتے ہیں جس سے مصنفہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ القاعدہ کی طرح اکثریت مسلمان مغرب کے دشمن نہیں ہیں کیونکہ مغرب کی طرح مسلمان بھی القاعدہ کے ہدف بن رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اور مسلمان ایک پیج پر ہیں جبکہ جہادی نظریات رکھنے والے دوسرے پیج پر۔
باب سوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان علماء نے جہادی کارروائیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ عام مسلمان اور سیاسی جدوجہد کرنے والے مسلمان ایک طرف ہیں جبکہ جہادی سرگرمیاں کرنے والے دوسری طرف ہیں۔اس باب میں اس خط کا تفصیلی ذکر موجود ہے جو "اوپن لیٹر ٹو البغدادی " کے نام سے 2014 میں شائع ہوا تھا۔
باب چہارم میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مغربی رویے اور عالمگیریت کے خلاف ہیں اور دہشت گرد نہیں ہیں کیوں کہ ان کی اکثریت جہادی سرگرمیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ حماس ایک نیشنلسٹ تحریک ہے۔ ان کا عالمی ریاست بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مسلمان عالمی ریاست یا اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے بجائے سیاسی ناانصافیوں پر مغرب سے نالاں ہیں۔ اس باب کا سیدھا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اسلام مغربی تہذیب کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ اپنی آفاقیت پر بالکل اصرار نہیں کرتا۔ یہ جو مغرب اور عام مسلمان میں تھوڑی بہت ناراضی ہے اس کی وجہ مغربی تہذیب اور اسلام تہذیب کی کشکمش کے بجاے سیاسی اور معاشی ناانصافیاں ہیں۔
باب پنجم میں مغرب اور مسلمان ممالک کے درمیان تعاون اور استحکامِ جمہوریت کی خواہش، سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے نفاذ کو بنیاد بنا کر یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام اور مغرب ساتھ ساتھ چل سکتے اور اسلام کو مغرب سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
آخری باب میں ان مغربی مفکرین پر تنقید کی گئی ہے جو اسلام اور مغرب کو حالتِ جنگ میں تصور کرتے ہیں یا جو اس کو تہذیبوں کا تصادم شمار کرتے ہیں۔ مصنفہ کا خیال ہے کہ سبب نزاع اسلام اور مغرب کا الگ الگ نظامِ زندگی ہونا نہیں ہے بلکہ اصل سبب مغرب کی سیاسی پالیسیاں ہیں۔
اس سے آگے خالص تبصرہ شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کا کوئی ضروری کام ادھورا پڑا ہے تو وہ انجام دیں۔
اس کتاب کا اسلوب سہل ہے۔ طرزِ تحریر میں پیچیدگی نہ ہونے کے برابر۔ تکرار بھی موجود ہے لیکن قابلِ برداشت حد تک۔ جہادی تنظیموںکے خلاف تعصب کا احساس ہوتا ہے، جس نے کتاب کی علمی و تحقیقی معیار میں کمی کر دی ہے۔ جہادی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جدوجہد کرنے والوں اور عام مسلمان مفکرین کے ہاں مغربی تہذیب کے خلاف جو رویے ملتے ہیں ان کا ذکر نہیں ہوا جس نے نتائج یک رْخے اور سطحی بنا دیئے۔
جب کوئی آپ سے یہ کہے کہ "آپ ماشاء اللہ بہت اچھے ہیں۔ آپ کے باپ دادا کو بھی میں جانتا ہوں، وہ بھی بہت شریف لوگ تھے۔ آپ کی اخلاقیات اور ہمارے ساتھ آپ لوگوں کے تعلقات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہمیشہ سے دوست ہیں اور ہمیشہ دوست رہیں گے۔" تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟۔۔۔ اپنی تعریف سنی، شرماتے شرماتے مسکرا دیئے اور عرض کیا، جی آپ درست فرماتے ہیں، شکریہ!۔۔۔ مغرب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کر رہے ہیں اور ہمارے لیے یہ مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم انکار کریں۔ جان اسپوسیٹو، کیرن آرمسٹرانگ اور یہ تمارا سن وغیرہ۔۔ یہ اسی قبیل کے لوگ ہیں۔ یہ لوگ اپنا تصورِ اسلام ہمارے سامنے رکھتے ہوئے ہماری تعریف کرتے ہیں اور ہمارے لیے اپنی اچھائی کا انکار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ بندہ عرض کرے: "جی ہم اچھے ہیں۔ لیکن آپ کا بتایا ہوا تصورِ اسلام، اصل تصورِ اسلام کے بجاے مغرب زدہ تصور اسلام ہے۔"
تمارا سن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جمہوریت، مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات، مغرب کے ساتھ اتحاد، دہشت گردی کے خلاف نیٹو کے ساتھ تعاون کی حامی ہے۔ موصوفہ کے دعوؤں کی بنیاد یا تو مسلمان حکمرانوں کی پالیسی ہے یا وہ گیلپ سروے جس میں 93 فی صد مسلمانوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے خلاف رائے دی ہے۔ تمارا سن کا گمان ہے کہ چونکہ مسلمانوں کی اکثریت القاعدہ اور داعش وغیرہ کی کارروائیوں (جن کی وجہ، مغرب دشمنی ہے) کے خلاف ہے اس لیے ہم مسلمانوں کو مغرب کا دشمن نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ یہ بات روشن ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت مغربی نظام کو باطل جانتی ہے اور بدقسمتی سے اس عظیم اکثریت کو کہیں سیاسی میدان سے دور رکھا گیا ہے اور کہیں ان کو سیاسی معاملات اور اہمیت کا شعور نہیں ہے۔ اس لیے یہ گمان غلط ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مغرب کو قبول کرتی ہے۔ مغرب سے مراد افراد یا علاقہ نہیں ہے بلکہ مغرب کا مطلب وہ پورا نظام زندگی جس کو وہ پوری دنیا پر جنگوں اور جعل سازیوں کے ذریعے سے نافذ کرنا چاہتا ہے۔
تَمارا سن کا خیال ہے کہ مسلمانوں میں جو شدت پسندی پائی جاتی ہے اس کی وجہ مسلمانوں کا معاشی اور سیاسی طور پر زبوں حال ہونا ہے۔ صداقت کا ایک حصہ موجود ہونے کے باوجود یہ خیال غلط ہے۔ مغرب کے مقابلے میں موجود شدت اور اپنی بنیادوں پر اصرار کی وجہ معاشی و سیاسی عدم استحکام نہیں،یہ ایک نظریاتی کشمکش ہے اور بقا کا مسئلہ۔ اگر اسلام اور مغرب کے درمیان موجود کشمکش، ایک نظریاتی کشمکش ہے اور اگر اس کشمکش سے اسلام کا مقصد، انسانیت کو مغربی تاریکی سے نکال کر نورِ اسلام سے سرشار کرنا ہے تو اس کشمکش کا خاتمہ معاشی و سیاسی استحکام کے بجاے کسی ایک نظامِ زندگی میں دوسرے کے انجذاب سے ہوگا۔
مستشرقین میں کچھ ایسے ہیں جو کھل کر اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اوربدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کچھ مخلص ہیں اور ہر دم تیار رہتے ہیں کہ درست بات تک رسائی پائیں۔ تیسری قسم ان کی ہے جو اسلام کو صرف اتنا لیتے ہیں جو مغرب کے لیے قابل قبول ہو اور اسی تعبیر کو اصل اسلام سمجھتے ہیں جو مغربی جاہلیت کی ہاں میں ہاں ملائے۔ تیسری قسم والے تصوف، اسلامی فنون اور متجددین علماء کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ ہمارے منہ میں اپنی بات ڈالنے کے ماہر ہیں۔