مدینہ منورہ ،ایک چنیدہ ریاست
مصر کے ذہین سردارفوراََ یہ بات سمجھ گئے کہ اس شخص کے مقاصد میں زمین پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے اور بلآخریہ ہمیں ریاست سے بے دخل کر کے اقتدارحاصل کرنا چاہتاہے۔پس انبیاء علیھم السلام جس پروگرام کے تحت اس زمین پر مبعوث کیے گئے اور جس ایجنڈے کے تحت انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھااس میں نظام سیاست کی تبدیلی بذریعہ حصول اقتدار شامل تھی۔خود ختمی مرتبت ﷺ کی یہ دعا قرآن مجید نے نقل کی ہے کہ’’ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاO ترجمہ:اوردعاکرو کہ پروردگارمجھ کو جہاں بھی لے جاتو سچائی کے ساتھ لے جااور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت80)۔پس اسی مطلوب قتدار کے لیے مدینہ طیبہ کی ایک ریاست محسن انسانیت ﷺ کے لیے تیارکی گئی۔
مدینہ منورہ کی ریاست انسانی تاریخ کی پہلی ریاست ہے جو کسی تحریری دستور کی بنیاد پر وجود میں آئی۔اس سے پہلے بھی قبیلہ بنی نوع انسان میں کتنی ہی ریاستیں وجود میں آتی رہیں اور مٹتی رہیں بڑی سے بڑی بھی اور چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستیں اس کرہ ارض کے صفحہ قرطاس پر اپنا وجود منواتی رہیں اور پھر تاریخ انسانی کے صحیفوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکیں لیکن مدینہ منورہ عالم انسانیت کی وہ پہلی ریاست بنی جس کی بنیاد ایک تحریری دستاویز’’میثاق مدینہ‘‘پراستوارکی گئی،اور اسی میثاق کی بنیاد پر محسن انسانیتﷺاس ریاست کے حکمران مقرر ہوئے۔میثاق مدینہ کی آخری شق یہی تھی کہ کسی بھی اختلاف کا آخری فیصلہ محسن انسانیت ﷺ کریں گے۔یہ تحریری دستورمحض دکھاوے کاورق نہ تھا بلکہ اس کے مطابق ریاست مدینہ کا نظم و نسق چلایاگیااور بے شمار مواقع پر اس دستور کے مطابق فیصلے کیے گئے اور جن جن فریقوں نے اس دستور کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی گئی جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر بنی قریظہ کے یہودیوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو غزوہ کے فوراََ بعد ان کا قلع قمع کر دیا گیا۔
ریاست مدینہ تاریخ انسانی کی پہلی ریاست تھی جو کثرت مذاہب،کثرت قوام اور کثرت لسان پر مشتمل ایک کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اور کثیرالسانی معاشرے پر مشتمل تھی۔اس ریاست میں خود مسلمان اگرچہ اکثریت میں تھے لیکن اس کے باوجود گروہی شناخت ان کے دامن گیر رہی،انصارومہاجرین ے دوبڑے بڑے گروہ مسلمانوں کے تھے پھر مہاجرین میں سے قریش اور غیر قریش لوگ بھی موجود تھے جیسے حضرت بلال ،حضرت سلمان فارسی وغیرہ غیرقریشی مہاجرین تھے ۔انصاری مسلمان اوس اور خزرج میں تقسیم تھے ،اس پر مستزادخود مسلمانوں کا گروہ کثیر منافقین و مومنین کے درمیان بٹا ہواتھاجس پر قرآن مجید نے بڑے سنگین قسم کے تبصرے کیے ہیں۔غیر مسلموں میں سب سے بڑی اقلیت یہود تھے جو اقلیت میں ہونے کے باوجوداپنے مال و اسباب اور اثرورسوخ میں اکثریت سے کسی طور کم نہیں تھے،اور اپنی اس حیثیت کو مسلمانوں کے برخلاف استعمال کرنے میں کبھی نہیں چوکتے تھے۔اتنے بڑے انسانی تنوع کے ساتھ اس آسمان نے پہلی بار اس زمین کے سینے پرکوئی ریاست بنی ہوئی دیکھی اور کامیابی سے چلتی
ہوئی بھی دیکھی۔آج کی دنیاؤں میں قائم اس طرح کے معاشرے تعصب اور فرقہ ورانہ اور نسلی فسادات سے بھرے پڑے ہیں،دنیاکے مہذب ترین سیکولریورپی معاشرے اپنے ہی ہم فکرسیکولرایشیائیوں کو برداشت نہیں کرتے اور وقتاََ فوقتاََان پر چڑھ دوڑتے ہیںلیکن مدینہ منورہ کی اس کثیرالقومی وکثیرالمذہبی ریاست میںاس نوع کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیااورمواخات کے درخشاں باب نے تو جیسے اس معاشرے کے افراد کو تسبیح کی طرح ایک دھاگے میں پرو سا دیا تھا۔
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھااس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاََکہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں،گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں کے لیے اور سانولوں کے لیے مطلقاََجداجداہیں جبہ ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں مسلمان قاضی ریاست کا فیصلہ یہودی کے لیے برات کا تھااورمسلمان کے لیے گردن زدنی کا تھا۔جب محسن انسانیت ﷺ سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب کی مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔
ریاست مدینہ دنیا کی وہ اولین ریاست تھی جودیگرریاستوں سے مزاکرات پر یقین رکھتی تھی،میثاق مدینہ کا ذکر ہو چکاجومزاکرات کا ہی نتیجہ تھا۔غزوہ خیبر میںفتح مند ہونے کے بعد اس وقت تک کے رواج کے مطابق مفتوح قوم کی قتل و غارت گری ہونی تھی،بچ جانے والوں کو لونڈی غلام بنایاجاناتھااور اس قوم کی املاک و جائدادسب فاتحین کا حق تھا لیکن آسمان انگشت بدنداں تھا کہ فاتح نے مزاکرات کی بساط بچھائی اور مفتوح کو اپنے سامنے برابر ی کی بنیاد پر بٹھاکر ان سے مزاکرات کیے ،مفتوحین کا سب کچھ انہیں لوٹاکر نصف پیداوارپر معاہدہ طے پاگیا۔فصل تیارہونے پرمسلمانوں کانمائندہ پہنچااورپیداوارنصف کی اور مفتوحین سے کہا کہ جوحصہ چاہو لے لواور جو چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے۔گویا ریاست مدینہ کے مزاکرات مفتوح و مجبوراقوام پر احسان مندی کا ذریعہ تھے نہ کہ آج کی نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردارسیکولرازم کی پروردہ ریاستوں کی مانندجن کے مزاکرات سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں اور جن کے مقاصدظالم کو مہلت مزید دے کر مجبورو مظلوم سے حق زندگی تک کا چھین لینا ہے۔ریاست مدینہ نے بیعت رضوان کے باوجود جنگ کو روک کر دشمن تک سے مزاکرات کیے اورتحریری صلح نامہ پردستخط کرنے سے پہلے بھی ثابت کیاکہ مزاکرات میں قول و قرارہو چکنے کے بعد پھر کسی رو رعایت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیاد’’مشاورت‘‘تھی،آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کا حکمران محسن انسانیت ﷺنے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیاکہ جمہورکا فیصلہ قابل اقتداہواکرتاہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیااس کا وجود ہی دنیا سے عنقا کردواور اوپر سے جمہوریت اورآزادی رائے اوربے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہولیکن ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں ،خواتین ہوں یابدیسی شہری ہوں سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو کہناپوچھناچاہتااسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔
ریاست مدینہ منورہ کی مدح و ستائش میں دفترلکھے گئے،لکھے جا رہے ہیں اور تاقیامت لکھے جاتے رہیں گے۔فتح مکہ ،ریاست مدینہ کا فیصلہ کن وتاریخ ساز اقدام تھاجس کے بعد انسانیت نے شرک کے اندھیروں سے نرتوحید کی طرف اپنے سفر کی تاسیس نو کی۔فتح مکہ کے بعد قیام پاکستان تاریخ اسلام کا سب سے بڑا واقعہ ہے ،لفظ مدینہ کا مطلب رہنے کی جگہ ہے اورطیبہ کا مطلب پاکیزہ ہے جبکہ یہی مطلب لفظ’’پاکستان‘‘کا بھی ہے ،ایستان رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور پاک کا مطلب پاکیزہ ہے،ریاست مدینہ کے سبق کااولین باب ہجرت ہے اور پاکستان کا مقدمہ بھی ہجرت سے شروع ہوتاہے،ریاست مدینہ منورہ کے دونوں جانب ایران و روم کی بڑی بڑی طاغوتی ریاستیں تھیںجبکہ پاکستان بھی روس اور امریکہ کی کالونیوںمیںگھراہواہے،ریاست مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی منافقین اس کے درپے آزار ہوئے اور کچھ یہی حال وطن عزیزپاکستان کا بھی ہے، ریاست مدینہ کے اولین باشندے جس جگہ سے ہجرت کر کے اپنے دینی وطن میں وارد ہوئے تھے اس جگہ کے فراعین نے آخری وقت تک ریاست مدینہ کو تسلیم نہیں کیا،وطن عزیز پاکستان کی بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں۔آج کے’’ دانشور‘‘ ریاست مدینہ کے وقت موجود ہوتے توحالات کے زیروبم سے وہ یہی نتائج اخذکرتے کہ ’’زمینی حقائق‘‘بتاتے ہیں یہ ریاست اپناوجود برقرارنہیں رکھ سکے گی لیکن تاریخ نے ثابت کیاکہ جس طرح وقت کے ابوجہل و ابولہب یہودکی دولت وثرت کے ساتھ مل کر بھی ریاست مدینہ کا کچھ نہیں بگاڑسکے اسی تاریخ کا پہیہ چلتے ہوئے وقت کو پھر دہرائے گااور وطن عزیزاسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا کے نقشے پر ایک مسجدکاسا تقدس رکھتاہے اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ہروال دستہ ثابت ہوکرخلافت علی منہاج نبوت کا سامان میسر کرے گا انشاء اﷲ تعالی۔